Monday, February 24, 2014

شمعِ دیں کی کیسے ہوسکتی ہے مدہم روشنی

شمعِ دیں کی کیسے ہوسکتی ہے مدہم روشنی
بزمِ طیبہ میں برستی ہے جھما جھم روشنی

خاکِ پائے شاہ کو سرمہ بنالیتا ہوں میں
میری آنکھوں میں کبھی ہوتی ہے جب کم روشنی

نورِ مطلق کے قریں بے ساختہ پہنچے حضور
روشنی سے کس قدر ہوتی ہے محرم روشنی

نقشِ پائے شہہ کی ہلکی سی جھلک ہے کارگر
کیسے ہوسکتی  ہے مہر و مہ کی مدہم روشنی

پانی پانی ہو ابھی یاد شہ کل میں صبیح
میرے اشکوں کی جو دیکھے چاہِ زم زم روشنی

Monday, January 13, 2014

اب کہاں جاؤں تڑپ کے دل کی یہ خواہش نکال

اب کہاں جاؤں تڑپ کے دل کی یہ خواہش نکال 
اے مدینے کی زمیں میری بھی گنجائش نکال

بارگاہ مصطفیٰ میں دل سے یہ آئی صدا
آج کی تاریخ سے تاریخ پیدائش نکال

پیش کردینا قمر سرمایہ نعتِ نبی
حشر میں جب حکم ہوگا نامۂ پرسش نکال

Saturday, November 16, 2013

آیا نہ ہوگا اس طرح حسب و شباب ریت پر

آیا نہ ہوگااس طرح حسن و شباب ریت پر
گلشنِ فاطمہ کے تھے سارے گلاب ریت پر

جانِ بطول کے سوا کوئی نہیں کھلا سکا
قطرۂ آب کے بغیر اتنے گلاب ریت پر

جتنے سوال عشق نے آل رسول سے کیے
ایک کے بعد اِک دیے سارے جواب ریت پر

پیاسا حسین کو کہوں اتنا تو بے ادب نہیں
لمسِ لبِ حسین کو ترسا ہے آب ریت پر

عشق میں کیا بچائیے عشق میں کیا لٹائیے
آلِ نبی نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر

آلِ نبی کا کام تھا آلِ نبی ہی کر گئے
کوئی نہ لکھ سکا ادیب ایسی کتاب ریت پر

بڑھے جو کرکے وہ سوئے شہ انعام سلام

بڑھے جو کرکے وہ سوئے شہ انعام سلام
صدائیں آتی تھیں ہر سمت سے سلام سلام

بڑا ہجوم تھا طیبہ کی پہلی منزل پر
کھڑے تھے راہ میں کرنے کو خاص و عام سلام

چلے حسین جو طیبہ سے کربلا کی طرف
جہاں پہنچتے تھے کرتا تھا وہ مقام سلام

زمینِ منزل مقصود نے قدم چومے
فلک نے دور سے جھک کر کہا امام سلام

شاہ وہ جنہیں سب شاہ شاہ کہتے ہیں
امام وہ جنہیں کرتے ہیں سب امام سلام

اُنہیں سلام منور یہ چاہتا ہے جی
تمام عمر لکھوں اور نہ ہو تمام سلام

Monday, April 8, 2013

حُدود تیر سدرا حضور جانتے ہیں


حُدود تیر سدرا حضور جانتے ہیں
کہاں ہے عرشِ معلیٰ حضور جانتے ہیں

پہنچ کے سدرہ پہ روح الامین یہ بولے
کہ اس سے آگے کا رستہ حضور جانتے ہیں

بروز حشر شفاعت کریں گے چن چن کر
ہر اک غلام کا چہرہ حضور جانتے ہیں

بروز حشر شفاعت کریں گے آپ لیکن
اگر ہوا یہ عقیدہ حضور جانتے ہیں

بلا بھی سکتے ہیں آپ اور آ بھی سکتے ہیں
کہ دوریوں کو مٹانا حضور جانتے ہیں

اُنہیں خبر ہے کہیں سے پڑھو درود اُن پر
تمام دہر کا نقشہ حضور جانتے ہیں

میں اس یقین سے نکلا ہوں جانبِ طیبہ
میرے سفر کا ارادہ حضور جانتے ہیں

قیامت آئے گی کب اُن کو علم ہے سرور
ظہورِ کن کا بھی لمحہ حضور جانتے ہیں

جو ہوچکا ہے جو ہوگا حضور جانتے ہیں

جو ہوچکا ہے جو ہوگا حضور جانتے ہیں
تیری عطا سے خدایا حضور جانتے ہیں

وہ مومنوں کی تو جانوں سے بھی قریب ہوئے
کہاں سے کس نے پکارا حضور جانتے ہیں

ملے تھے راہ میں نو بار کس لیے موسیٰ
یہ دید حق کا بہانہ حضور جانتے ہیں

میں چپ کھڑا ہوں مواجہ پہ سر جھکائے ہوئے
سناؤں کیسے فسانہ حضور جانتے ہیں

چھپا رہے ہیں لگاتار میرے عیبوں کو
میں کس قدر ہوں کمینہ حضور جانتے ہیں

ہرن نے اونٹ نے چڑیوں نے کی یہی فریاد
کہ اُن کے غم کا مداوا حضور جانتے ہیں

ہرن یہ کہنے لگی چھوڑ دے مجھے سید
میں لوٹ آؤں گی واللہ حضور جانتے ہیں

بلا رہے ہیں نبی جا کے اتنا بول اسے
درخت کیسے چلے گا حضور جانتے ہیں

میں اُن کی بات کروں یہ نہیں میری اوقات
کہ شانِ فاطمہ زہرا حضور جانتے ہیں

کہاں مریں گے ابوجہل و عتبہ و شیبہ
کہ جنگ بدر کا نقشہ حضور جانتے ہیں

نہیں ہے زادِ سفر پاس جن غلاموں کے
اُنہیں بھی در پہ بلانا حضور جانتے ہیں

خدا ہی جانے عبید اُن کو ہے پتا کیا کیا
ہمیں پتا ہے بس اتنا حضور جانتے ہیں

کچھ ایسا کردے میرے کردگار آنکھوں میں


کچھ ایسا کردے میرے کردگار آنکھوں میں
کہ جلوہ گر رہے رُخ کی بہار آنکھوں میں

وہ نور دے میرے پروردگار آنکھوں
کہ جلوہ گر رہے رُخ کی بہار آنکھوں میں

بسر کے ساتھ بصیرت بھی خوب روشن ہو
لگاؤں خاکِ قدم بار بار آنکھوں میں

نظرمیں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کہ خار آنکھوں میں

اُنہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں
کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں

یہ دل تڑپ کے کہیں آنکھوں میں نہ آجائے
کہ پھر رہا ہے کسی کا مزار آنکھوں میں

عجب نہیں کہ لکھا لَوح کا نظر آئے
جو نقشِ پا کا لگاؤں غبار آنکھوں میں

فرشتوں پوچھتے ہو مجھ سے کس کی امت ہو
لو دیکھ لو یہ ہے تصویرِ یار آنکھوں میں

کرم یہ مجھ پہ کیا ہے میرے تصور نے 
کہ آج کھینچ دی تصویرِ یار آنکھوں میں

پیا ہے جامِ محبت جو آپ نے نوری
ہمیشہ اس کا رہے گا خمار آنکھوں میں