Wednesday, December 30, 2009

سرکار کا کرم ہے

Sarkar Ka Karam Hai


نعت خواں: سید ریحان قادری

سرکار کا کرم ہے سرکار کا کرم ہے
سرکار کا کرم ہے سرکار کا کرم ہے
سرکار کا کرم ہے سرکار کا کرم ہے
سرکار کا کرم ہے سرکار کا کرم ہے

یہ ناز یہ انداز ہمارے نہیں ہوتے
جھولی میں اگر ٹکڑے تمہارے نہیں ہوتے
ملتی نہ اگر بھیک حضور آپ کے در سے
اس شان سے منگتوں کے گزارے نہیں ہوتے
سرکار کا کرم ہے سرکار کا کرم ہے

کتنا بڑا ہے مجھ پہ یہ احسانِ مصطفی
کہتے ہیں لوگ مجھ کو ثناء خوانِ مصطفی
سرکار کا کرم ہے سرکار کا کرم ہے

ہے سامنے نگاہ کے روضہ حضور کا
عالم نہ پوچھیے میرے کیف و سرور کا
معلوم ہے مجھے میری اوقات کچھ نہیں
لیکن میں جو بھی کچھ ہے کرم ہے حضور کا
سرکار کا کرم ہے سرکار کا کرم ہے

مانگے نہ مانگے بھیک یہ مرضی فقیر کی
بن مانگے مل رہا ہے سرکار کی گلی میں
سرکار کا کرم ہے سرکار کا کرم ہے

تیری رحمتوں کا دریا سرِ عام چل رہا ہے
مجھے بھیک مل رہی ہے میرا کام چل رہا ہے
میرے دامنِ گدائی میں بھیک مصطفی کی
اِسی بھیک پر تو قاسم میرا کام چل رہا ہے
سرکار کا کرم ہے سرکار کا کرم ہے

نبیوں میں نبی آپ سا دیکھا نہیں کوئی
اللہ کے محبوب سے اونچا نہیں کوئی
کس پر نہیں آقا کا کرم کوئی بتائے
اللہ کی قسم ایسا تو دیکھا نہیں کوئی
سرکار کا کرم ہے سرکار کا کرم ہے

مجھے آپ نے بلایا یہ کرم نہیں تو کیا ہے
میرا مرتبہ بڑھایا یہ کرم نہیں تو کیا ہے
قربان جاوٴں تیرے یہ شرف بڑا شرف ہے
مجھے نعت خواں بنایا یہ کرم نہیں تو کیا ہے
سرکار کا کرم ہے سرکار کا کرم ہے

Thursday, December 24, 2009

آیا نہ ہوگا اس طرح حسن

Aaya na hoga is tarah husno shabab ret per


نعت خواں: ذوالفقار علی

آیا نہ ہوگا اِس طرح حسن و شباب ریت پر
گلشنِ فاطمہ کے تھے سارے گلاب ریت پر

جانِ بتول کے سوا کوئی نہیں کھلا سکا
قطرہٴ آب کے بغیر اتنے گلاب ریت پر

جتنے سوال عشق نے آلِ رسول سے کیے
ایک کے بعد اِک دیے سارے جواب ریت پر

پیاسا حسین کو کہوں اتنا تو بے ادب نہیں
لمسِ لبِ حسین کو ترسا ہے آب ریت پر

عشق میں کیا بچائیے عشق میں کیا لُٹائیے
آلِ نبی نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر

آلِ نبی کا کام تھا آلِ نبی ہی کر گئے
کوئی نہ لکھ سکا ادیب ایسی کتاب ریت پر

راہِ وفا میں سر جو کٹایا حسین نے

Rahe wafa main sar jo kataya husain ne


نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری

راہِ وفا میں سر جو کٹایا حسین نے
در اصل ظلمتوں کو مٹایا حسین نے

ایک درس دے گئے وہ پسِ پردۂ جہاد
رشتہ یہ خوب حق سے نبھایا حسین نے

سر خم کیا نہ ظلم و ضلالت کے رو برو
اُمت کو اِس طرح سے بچایا حسین نے

دے کر زمینِ دین کو نذرانۂ لہو
نانا کی عظمتوں کو بڑھایا حسین نے

پانی بھی بند کردیا فوجِ یزید نے
اِس پر بھی صبر کرکے دِکھایا حسین نے

خاکی تم اُس زمین کے ذروں کو چوم لو
جس سر زمیں پہ خون بہایا حسین نے

Wednesday, December 23, 2009

میرا بادشاہ حسین ہے

mera baadsha husain hai


نعت خواں: سید محمد فرقان قادری

نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے
میرا بادشاہ حسین ہے میرا بادشاہ حسین ہے

عمل کا رہنما بھی جو شاہوں کا ہے شاہ بھی
ایسا شہنشاہ حسین ہے

سنو سنو یہ دین تو حسین کا ہمیں انعام ہے
یہ بات کس قدر حسیں جو کہہ گئے معین الدیں
کہ دین کی پناہ حسین ہے

شہید وہ شہید ہے شہیدوں کو بھی جن پہ ناز ہے
یہ ہو چکا ہے فیصلہ نہ کوئی دوسرا خدا
نہ کوئی دوسرا حسین ہے

دعاؤوں میں نواؤں میں اُنہیں وسیلہ جو بنائے گا
نہ راستے میں موڑ ہے نہ واسطے میں موڑ ہے
ایسی سیدھی راہ حسین ہے

شہید کربلا کا نام جس کو ناگوار ہے
وہ بد نظر ہے بد نصب اُنہیں میں یہ شمار ہے
ارے اُو منکرِ ازل تو مر ذرا قبر میں چل
پتا چلے گا کیا حسین ہے

فنا کے بعد پھر مجھے نئی حیات مل گئی
عذاب سے عتاب سے مجھے نجات مل گئی
سوال جب کیا گیا ہے کون تیرا پیشوا
تو میں نے کہہ دیا حسین ہے

Tuesday, December 15, 2009

مسلکِ اعلیٰ حضرت سلامت رہے

Maslake ala hazrat salamat rahe


نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری، حافظ طاہر قادری

یا خدا چرخِ اسلام پر تا ابد
میرا تاجِ شریعت سلامت رہے
مسلکِ اعلیٰ حضرت سلامت رہے
مسلکِ اعلیٰ حضرت سلامت رہے

اے بریلی میرا باغِ جنت ہے تو
یعنی جلوہ گہِ اعلیٰ حضرت ہے تو
بالیقیں مرکزِ اہلِ سنت ہے تو
یہ تیری مرکزیت سلامت رہے

نعرہ فیضِ رضا کا لگاتا رہوں
نجدیوں کے دلوں کو جلاتا رہوں
اور کلامِ رضا میں سُناتا رہوں
فیضِ احمد رضا تا قیامت رہے

اہلِ ایمان تو کیوں پریشان ہے
رہبری کو تیری کنزالایمان ہے
ہر قدم پر یہ تیرا نگہبان ہے
یا خدا یہ امانت سلامت رہے

روزِ محشر اگر مجھ سے پوچھے خدا
بول آلِ رسول تو لایا ہے کیا
پیش کردوں گا لایا ہوں احمد رضا
یا خدا یہ امانت سلامت رہے

لاکھ جلتے رہیں دشمنانِ رضا
کم نہ ہوں گے کبھی مدح خوانِ رضا
کہہ رہے ہیں سبھی عاشقانِ رضا
مسلکِ اعلیٰ حضرت سلامت رہے

Friday, December 11, 2009

یا رب میں گنہگار ہوں توبہ قبول

Ya rab main gunahgar hoon Toba qubool ho


نعت خواں: محمود الحسن اشرفی

یا رب میں گنہگار ہوں، توبہ قبول ہو
عصیاں پہ شرمسار ہوں، توبہ قبول ہو
جاں سوز و دل فگار ہوں، توبہ قبول ہو
سر تا پا انکسار ہوں، توبہ قبول ہو
توبہ قبول ہو، مِری توبہ قبول ہو

گزری تمام عمر مِری لہو و لعب میں
نیکی نہیں ہے کوئی عمل کی کتاب میں
صالح عمل بھی کوئی نہیں ہے حساب میں
دستِ دُعا بلند ہے تیری جناب میں
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

عیش و نشاط ہی میں گزاری ہے زندگی
ہر زاویے سے اپنی سنواری ہے زندگی
میرا خیال یہ تھا کہ جاری ہے زندگی
لیکن یہ حال اب ہے کہ بھاری ہے زندگی
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

تیرے کرم کو تیری عطا کو بُھلا دیا
اعمال کی جزا و سزا کو بُھلا دیا
طاقت ملی تو کرب و بلا کو بُھلا دیا
ہر ناتوا کیا ہے رسا کو بُھلا دیا
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

میں تو سمجھ رہا تھا کہ دولت ہے جس کے پاس
اُس کو نہ کوئی خوف ہے اُس کو نہ کچھ ہراس
ہوگا نہ زندگی میں کسی وقت وہ اُداس
لیکن وہ میری بھول تھی، اب میں ہوں محوِ یاس
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

میں ہوں گنہگار مگر تُو تو ہے کریم
میں ہوں سیاہ کار مگر تُو تو ہے رحیم
میں ہوں پناہ پذیر مگر تُو تو ہے قدیم
میں ادنیٰ و حقیر سہی تُو تو ہے عظیم
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

یا رب تِرے کرم تیری رحمت کا واسطہ
یا رب تِری عطا تیری نعمت کا واسطہ
یا رب تیرے جلال و جلالت کا واسطہ
یا رب رسولِ حق کی رسالت کا واسطہ
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

میں اعتراف کرتا ہوں اپنے قصور کا
میں ہوگیا تھا ایسے گناہوں میں مبتلا
جن کی ہے آخرت میں کڑی سے کڑی سزا
لیکن مجھے تو تیرے کرم سے ہے آسرا
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

یا رب ہے بخش دینا

ya rab hai bakhsh dena


کلام: الحاج فصیح الدین سہروردی

یا رب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا
محروم رہ نہ جائے کل یہ غلام تیرا

ہے تو ہی دینے والا پستی سے دے بلندی
اسفل مقام میرا اعلیٰ مقام تیرا

شمس الضحیٰ محمد بدرالدجیٰ محمد
ہے نورِ پاک روشن ہر صبح و شام تیرا

محروم کیوں رہوں میں جی بھر کے کیوں نہ لوں میں
دیتا ہے رزق سب کو ہے فیض عام تیرا

یہ داغ بھی نہ ہوگا تیرے سوا کسی کا
کونین میں ہے جو کچھ وہ ہے تمام تیرا

ایمان کی کہیں گے ایمان ہے ہمارا
احمد رسول تیرا مسحف کلام تیرا

Wednesday, December 9, 2009

در نبی پر پڑا رہوں گا

Dare nabi per para rahoon ga


نعت خواں: ذوالفقار علی


درِ نبی پر پڑا رہوں گا پڑے ہی رہنے سے کام ہوگا
کبھی تو قسمت کھلے گی میری کبھی تو میرا سلام ہوگا

خلافِ معشوق کچھ ہوا ہے نہ کوئی عاشق سے کام ہوگا
خدا بھی ہوگا اُدھر ہی اے دِل جدھر وہ عالی مقام ہوگا

کیے ہی جاؤں گا عرضِ مطلب ملے گا جب تک نہ دل کا مطلب
نہ شامِ مطلب کی صبح ہوگی نہ یہ فسانہ تمام ہوگا

جو دل سے ہے مائلِ پیمبر یہ اُس کی پہچان ہے مقرر
کہ ہر دم اُس بے نوا کے لب پر درود ہوگا سلام ہوگا

اِسی توقع پہ جی رہا ہوں یہی تمنا جِلا رہی ہے
نگاہِ لطف و کرم نہ ہوگی تو مجھ کو جینا حرام ہوگا

Friday, December 4, 2009

تیرا جلوہ پیشِ نظر رہے

Tera Jalwa Pesh Nazar Rahe

تیرا جلوہ پیشِ نظر رہے تجھے دیکھ کر میں جیا کروں
جہاں کوئی تیرے سوا نہ ہو میں اسی فضا میں رہا کروں

رُخِ مصطفےٰ وہ کتاب ہے جو محبتوں کا نصاب ہے
وہی میرے پیشِ نظر رہے یہی رات دن میں پڑھا کروں

مری جس قدر ہیں ضرورتیں کہیں اس سے بڑھ کے نوازشیں
مجھے دے رہے ہیں وہ بے طلب میں دُعا کروں بھی تو کیا کروں

تری یاد میری بہار ہے تیری یاد غم کا حصار ہے
ترا شکر رحمتِ دو جہاں میں کروں تو کیسے ادا کروں

جو کبھی نصیب ہو حاضری تو ملے نصیب کو یاوری
ترے سنگِ در پہ جھکا کے سر میں نمازِ عشق ادا کروں

مجھے اپنا جلوہ دکھائے جا میرے دل میں آکے سمائے جا
میں شرابِ معرفت خدا ترا نام لے کے پیا کروں

مجھے اپنی راہ چلائے جا مرے حوصلوں کو بڑھائے جا
تری جستجو مری عید ہو تری جستجو میں رہا کروں

تری یاد ہی مِرا تاج ہے تیری یاد غم کا علاج ہے
میرے دل میں تیرا ہی راج ہے تجھے یاد صبح و مسا کروں

مری خلد خالدِ بینوا یہی مدعا یہی التجا
میں نبی کی نعت لکھا کروں میں نبی کی نعت پڑھا کروں

یہ نظر حجاب نہیں رہے

Ye Nazar Hijaab Nahi Rahe
یہ نظر حجاب نہیں رہے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
نہیں ان سے کوئی بھی فاصلہ یہ بہت قریب کی بات ہے

وہاں ہر طبیب ہے سر بہ خم جہاں موت آکے رکھے قدم
جو قضا کے وقت کو ٹال دے وہ میرے طبیب کی بات ہے

کوئی اس جہاں کا اسیر ہے کوئی اس جہاں کا حریص ہے
میں فدائے ذکرِ رسول ہوں یہ میرے نصیب کی بات ہے

میں بروں سے لاکھ برا سہی مگر ان سے ہے میرا واسطہ
میری لاج رکھنا میرے خدا یہ تیرے حبیب کی بات ہے

میں جیوں غریبوں کے ساتھ ہی میں اٹھوں غریبوں کے ساتھ ہی
جو بڑا غریب نواز ہے یہ اسی غریب کی بات ہے

وہ خدا نہیں ہے مجھے یقیں مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں
نہ محب کا قول کہیں جدا نہ جدا حبیب کی بات ہے

کوئی پاس رہ کے بھی دور ہے کوئی دور رہ کے بھی پاس ہے
مگر اس میں کوئی کرے گا کیا یہ فقط نصیب کی بات ہے

میری کیا مجال کہ لکھ سکوں کوئی نعت خالد بے نوا
جو نقیب عشق رسول ہے یہ اُسی نقیب کی بات ہے

Wednesday, December 2, 2009

منگتے ہیں کرم اُن کا سدا

Mangte Hain Karam Un Ka Sada Maang Rahe Hain

منگتے ہیں کرم اُن کا سدا مانگ رہے ہیں
دن رات مدینے کی دعا مانگ رہے ہیں

ہر نعمتِ کونین ہے دامن میں ہمارے
ہم صدقۂِ محبوبِ خدا مانگ رہے ہیں

اے دردِ محبت ابھی کچھ اور فزوں ہو
دیوانے تڑپنے کی ادا مانگ رہے ہیں

یوں کھوگئے سرکار کے الطاف و کرم میں
یہ بھی تو نہیں ہوش کہ کیا مانگ رہے ہیں

اسرار کرم کے فقط ان پر ہی کھلے ہیں
جو تیرے وسیلے سے دعا مانگ رہے ہیں

سرکار کا صدقہ مرے سرکار کا صدقہ
محتاج و غنی شاہ و گدا مانگ رہے ہیں

اس دورِ ترقی میں بھی ذہنوں کے اندھیرے
خورشیدِ رسالت کی ضیاء مانگ رہے ہیں

یہ مان لیا ہے کہ ترا درد ہے درماں
طالب ہیں شفا کے نہ دوا مانگ رہے ہیں

ہم کو بھی ملے دولتِ دیدار کا صدقہ
دیدار کی جراٴت بھی شہا مانگ رہے ہیں

سرکار سے سرکار کو مانگا نہیں جاتا،
اتنی بڑی سرکار س کیا مانگ رہے ہیں

دامانِ عمل میں کوئی نیکی نہیں خالد
بس نعتِ محمد کا صلہ مانگ رہے ہیں

رشتے تمام توڑ کے سارے جہاں

Rishte Tamam Tor Ke Saare Jahan Se Hum

رشتے تمام توڑ کے سارے جہاں سے ہم
وابستہ ہوگئے ہیں ترے آستاں سے ہم

ہر رُخ سے ہر جگہ تھی مصائب کی یورشیں
ان کا کرم نہ ہوتا تو بچتے کہاں سے ہم

ہم ہیں غلام ان کی غلامی پہ ناز ہے
پہچانے جائیں گے اسی نام و نشاں سے ہم

سرکار آپ خود ہی کرم سے نواز دیں
کچھ عرض کرسکیں گے نہ اپنی زباں سے ہم

یہ سب غمِ حبیبِ مکرم کا فیض ہے
آزاد ہوگئے ہیں غمِ دو جہاں سے ہم

دنیا سمجھ رہی ہے غنی اور ہیں غنی
پاتے ہیں بھیک ایسے سخی آستاں سے ہم

حق کرسکے ادا جو ثنائے حضورﷺ کا
ایسی زبان لائیں تو لائیں کہاں سے ہم

حارج نہیں ہے وسعتِ کون و مکاں کہیں
سنتے ہیں وہ ضرور پکاریں جہاں سے ہم

ایسا سدا بہار ہے داغِ غمِ نبیﷺ
محفوظ رہیں گے ہمیشہ خزاں سے ہم

اندازہ ہے یہ شدتِ جذبات دیکھ کر
پہنچے اگر نہ آئیں گے واپس وہاں سے ہم

سوئے حرم چلے جو مسرت کے قافلے
روئے لپٹ کے گردِ رہِ کارواں سے ہم

ایمان و آگہی ہے یہی بندگی یہی
رکھتے ہیں غم عزیز بہت اپنی جاں سے ہم

خالد درِ حضورﷺ اگر ہو گیا نصیب
دونوں جہاں لے کے اُٹھیں گے وہاں سے ہم

Tuesday, December 1, 2009

چلو دیارِ نبی کی جانب

Chalo Diyar e Nabi Ki Jaanib


نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری
کلام: خالد محمود نقشبندی


چلو دیارِ نبی کی جانب درود لب پر سجا سجا کر
بہار لوٹیں گے ہم کرم کی دلوں کو دامن بنا بنا کر

نہ اُن کے جیسا سخی ہے کوئی نہ اُن کے جیسا غنی ہے کوئی
وہ بینواؤں کو ہر جگہ سے نوازتے ہیں بلا بلا کر

جو شاہکار انکی یاد کے ہیں امانتاً عشق نے دیے ہیں
چراغِ منزل بنیں گے اک دن رکھو وہ آنسو بچا بچاکر

ہماری ساری ضرورتوں پر کفالتوں کی نظر ہے انکی
وہ جھولیاں بھر رہے ہیں سب کی کرم کے موتی لٹا لٹا کر

وہ راہیں اب تک سجی ہوئی ہیں دلوں کا کعبہ بنی ہوئی ہیں
جہاں جہاں سے حضور گزرے ہیں نقش اپنا جما جما کر

کبھی جو میرے غریب خانے کی آپ آکر جگائیں قسمت
میں خیر مقدم کے گیت گاؤنگا اپنی پلکیں بچھا بچھا کر

تمہاری نسبت کے میں تصدق اساسِ عظمت ہے یہ تعلق
کہ انبیاء سرخرو ہوئے ہیں سرِ اطاعت جھکا جھکا کر

ہے ان کو امت سے پیار کتنا کرم ہے رحمت شعار کتنا
ہمارے جرموں کو دھو رہے ہیں حضورﷺ آنسو بہا بہا کر

میں ایسا عاصی ہوں جس کی جھولی میں کوئی حسنِ عمل نہیں ہے
مگر وہ احسان کر رہے ہیں خطائیں میری چھپا چھپا کر

یہی اساسِ عمل ہے میری اسی سے بگڑی بنی ہے میری
سمیٹتا ہوں کرم خدا کا نبی کی نعتیں سنا سنا کر

وہ آئینہ ہے رُخِ محمدﷺ کہ جس کا جوہر جمالِ رب ہے
میں دیکھ لیتا ہوں سارے جلوے تصور انکا جما جما کر

کبھی تو برسے گا ابرِ رحمت کبھی تو جاگے گی میری قسمت
کچھ اشک تیار کر رہا ہوں میں سوزِ الفت بڑھا بڑھا کر

میں تیرے قربان میرے ساقی رہے نہ ارمان کوئی باقی،
مجھے محبت کا حوصلہ دے نظر سے اپنی پلا پلا کر

مٹانے والے ہی مٹ گئے ہیں کہ تیرے سائے میں پل رہے ہیں
یہ تجربہ کر چکی ہے دنیا ہمیں ابھی تک مٹا مٹا کر

اگر مقدر نے یاوری کی اگر مدینے گیا میں خالد
قدم قدم خاک اس گلی کی میں چوم لوں گا اُٹھا اٹھا کر