Friday, August 21, 2009

دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی

Dil Main Ho Yaad Teri Goshae Tanhai Ho



نعت خواں: الحاج محمد اویس رضا قادری
کلام: مولانا حسن رضا خاں بریلوی


دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو

آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتے
کب وہ چاہیں گے میری حشر میں رسوائی ہو

اس کی قسمت پہ فدا تخت شہی کی راحت
خاک طیبہ پہ جسے چین کی نیند آئی ہو

بند جب خواب اجل سے ہوں حسن کی آنکھیں
اس کی نظروں میں تیرا جلوہ زیبائی ہو

تیری رحمتوں کا دریا سرِ عام چل

تیری رحمتوں کا دریا سرِ عام چل رہا ہے
مجھے بھیک مل رہی ہے میرا کام چل رہا ہے

میرے دل کی دھڑکنوں میں ہے شریک نام تیرا
اسی نام کی بدولت میرا نام چل رہا ہے

سرِ عرش نام تیرا سرِ حشر بات تیری
کہیں بات چل رہی ہے کہیں نام چل رہا ہے

اسے پوجتی ہے دنیا اسے ڈھونڈتی ہے منزل
رہ عشق مصطفی پہ جو غلام چل رہا ہے

میرے دامن گدائی میں ہے بھیک مصطفیٰ کی
اسی بھیک پر تو قاسم میرا کام چل رہا ہے

تیرے قدموں میں آنا میرا کام

تیرے قدموں میں آنا میرا کام تھا
میری قسمت جگانا تیرا کام ہے
میری آنکھوں کو ہے دید کی آرزو
رخ سے پردہ اٹھانا تیرا کام ہے

تیری چوکھٹ کہاں اور کہاں یہ جبیں
تیرے فیض کرم کی تو حد ہی نہیں
جن کو دنیا میں نہ کوئی اپنا کہے
اُن کو اپنا بنانا تیرا کام ہے

باڑا بجتا ہے سلطان کونین کا
صدقہ مولیٰ علی صدقہ حسنین کا
صدقہ خواجہ پیا غوث ثقلین کا
حاضری ہوگئی یہ بھی انعام ہے

میرے دل میں تیری یاد کا راج ہے
ذہن تیرے تصور کا محتاج ہے
اک نگاہ کرم ہی میری لاج ہے
لاج میری نباہنا تیرا کام ہے

پیش ہر آرزو ہر تمنا کرو
تھام لو جالیاں التجائیں کرو
مانگنے والو دامن کشادہ کرو
کملی والے کا فیض کرم عام ہے

مر کے اپنی ہی اداؤں پہ امر

مر کے اپنی ہی اداؤں پہ امر ہو جاؤں
ان کی دہلیز کے قابل میں اگر ہوجاؤں

ان کی راہوں پہ مجھے اتنا چلانا یارب
کہ سفر کرتے ہوئے گرد سفر ہوجاؤں

زندگی نے تو سمندر میں مجھے پھینک دیا
اپنی مٹھی میں وہ لے لیں تو گوہر ہوجاؤں

میرا محبوب ہے وہ راہبر کون و مکاں
جن کی آہٹ بھی میں سن لوں تو خضر ہوجاؤں

اس قدر عشق نبی ہو کہ بھلادوں خود کو
اس قدر خوف خدا ہو کہ نڈر ہوجاؤں

ضرب دوں خود کو جو ان سے تو لگوں لاتعداد
وہ جو مجھ سے نکل جائے تو صفر ہوجاؤں

جو پہنچتی رہے ان تک جو رہے محو طواف
ایسی آواز بنوں، ایسی نظر ہوجاؤں

آرزو اب تو مظفر جو کوئی ہے تو یہ ہے
جتنا باقی ہوں مدینے میں بسر ہوجاؤں

جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے

jub masjid e nabwi per


کلام: مرغوب ہمدانی



نعت خواں: صبیح احمد صبیح رحمانی

جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے
اللہ کی رحمت کے آثارنظر آئے

منظر ہوں بیاں کیسے الفاظ نہیں ملتے
جس وقت محمد کا دربار نظر آئے

بس یاد رہا اتنا سینے سے لگی جالی
پھر یاد نہیں کیا کیا انوار نظر آئے

دکھ درد کے ماروں کو غم یاد نہیں رہتے
جب سامنے آنکھوں کے غم خوار نظر آئے

مکے کی فضاؤں میں طیبہ کی ہواؤں میں
ہم نے تو جِدھر دیکھا سرکار نظر آئے

میری ہے دعا اِتنی سرکار کے روزے پر
اللہ کرے میرا ہر یار نظر آئے

چھوڑ آیا ظہوری میں دل و جان مدینے میں
اب جینا یہاں مجھ کو دشوار نظر آئے

اُن کے جو غلام ہوگئے

Un ke jo gulam ho gaye


نعت خواں: سید محمد ریحان قادری

اُن کے جو غلام ہوگئے
وقت کے امام ہوگئے

جب بلایا آقا نے
خود ہی انتظام ہوگئے

انبیاء کھڑے ہیں صف بہ صف
مصطفیٰ امام ہوگئے

چشم و بینا ہو تو دیکھ لو
ان کے جلوے عام ہوگئے

مصطفیٰ کی شان دیکھ کر
بادشاہ غلام ہوگئے

نام لیوا اُن کے جو ہوئے
اُن کے اونچے نام ہوگئے

واسطہ دیاجو آپ کا
میرے سارے کام ہوگئے

رخِ مصطفیٰ کو دیکھا تو دیوں نے

Rukhe Mustafa KO Dekha To Diyon Ne Jalna Sikha

رخِ مصطفیٰ کو دیکھا تو دیوں نے جلنا سیکھا
یہ کرم ہے مصطفیٰ کا، شب غم میں ڈھلنا سیکھا

یہ زمیں رکی ہوئی تھی یہ فلک تھما ہوا تھا
چلے جب میرے محمد تو جہاں نےچلنا سیکھا

بڑا خوش نصیب ہوں میں میری خوش نصیبی دیکھو
شاہ انبیاء کے ٹکڑوں پہ ہے میں نے پلنا سیکھا

میں گرا نہیں جو اب تک یہ کمال مصطفیٰ ہے
میری ذات نے نبی سے ہے صدا سنبھلنا سیکھا

میرا دل بڑا ہی بے حس تھا کبھی نہیں یہ تڑپا
سنی نعت جب نبی کی تو یہ دل مچلنا سیکھا

میں تلاش میں تھا رب کی کہاں ڈھونڈتا میں اس کو
لیا نام جب نبی کا تو خدا سے ملنا سیکھا

میں رہا خلش مظفر درِ پاک مصطفیٰ پر
میرے جذبہ عاشقی نے کہاں گھر بدلنا سیکھا

عدم سے لائی ہے ہستی میں

Adam Se Laai Hai Hasti Main Aarzoe Rasool


عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول

بلائیں لوں تری اے جذب شوق صلی علی
کہ آج دامن دل کھنچ رہا ہے سوئے رسول

تلاش نقش کف پائے مصطفیٰ کی قسم
چنے ہیں آنکھوں سے ذرات خاک کوئے رسول

شگفتہ گلشن زہرہ کا ہر گل تر ہے
کسی میں رنگ علی ہے کسی میں بوئے رسول

پھر ان کے نشہ عرفاں کا پوچھنا کیا ہے
جو پی چکے ہیں ازل میں مئے سبوئے رسول

عجب تماشا ہو میدان حشر میں بیدم
کہ سب ہوں پیش خدا اور میں رو بروئے رسول

کرم آج بالائے بام آگیا ہے

Karam aaj baalae baam aagaya hai


نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری



نعت خواںۂ محمد خورشید احمد

کرم آج بالائے بام آگیا ہے
زباں پر محمد کا نام آگیا ہے

درودوں کی بارش ہے کون و مکاں پر
کہ آج انبیاء کا امام آگیا ہے

مجھے مل گئی ہے دو عالم کی شاہی
مرا ان کے منگتوں میں نام آگیا ہے

مرے پاس کچھ بھی نہ تھا روز محشر
نبی کا وسیلہ ہی کام آگیا ہے

مزا جب ہے سرکار محشر میں کہہ دیں
وہ دیکھو ہمارا غلام آگیا ہے

چراغاں ہوا بزم ہستی میں خالد
نگاہوں میں حسن تمام آگیا ہے

آج اشک میرے نعت سنائیں

aaj ashk mere naat sunaen tou ajab kia


نعت خواں: حوریہ فہیم
کلام: ادیب رائے پوری

آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا
سن کر وہ مجھے پاس بلائیں تو عجب کیا

ان پر تو گنہگار کا سب حال کھلا ہے
اس پر بھی وہ دامن میں چھپائیں تو عجب کیا

منہ ڈھانپ کے رکھنا کہ گنہگار بہت ہوں
میت کو میری دیکھنے آئیں تو عجب کیا

اے جوش جنوں پاس ادب بزم ہے جن کی
اس بزم میں تشریف وہ لائیں تو عجب کیا

دیدار کے قابل تو نہیں چشم تمنا
لیکن وہ کبھی خواب میں آئیں تو عجب کیا

پابند نوا تو نہیں فریاد کی رسمیں
آنسو یہ مرا حال سنائیں تو عجب کیا

نہ زاد سفر ہے نہ کوئی کام بھلے ہیں
پھر بھی مجھے سرکار بلائیں تو عجب کیا

حاصل جنہیں آقا کی غلامی کا شرف ہے
ٹھوکر سےوہ مردوں کو جلائیں تو عجب کیا

وہ حسن دو عالم ہیں ادیب ان کے قدم سے
صحرا میں اگر پھول کھل آئی تو عجب کیا

Monday, August 17, 2009

روشنی کی فضا پانے والے گئے

Roshni ki faza paane wale gaye


نعت خواں: الحاج صبیح احمد صبیح رحمانی


روشنی کی فضا پانے والے گئے اور میں رہ گیا
در پہ سرکار کے جانے والے گئے اور میں رہ گیا

اِس برس میری تقدیر کھوٹی رہی یعنی سوتی رہی
ناز قسمت پہ فرمانے والے گئے اور میں رہ گیا

اُس درِ پاک پر کتنے پہلے پہر کتنے بارِ دِگر
زندگی کی سند لانے والے گئے اور میں رہ گیا

اے شہہ دوسرا دل پہ قابو رہے بھی تو کیسے رہے
ہم سفر میرے کہلانے والے گئے اور میں رہ گیا

بارگاہ نبی میں ہے حسن ادب حال دل کے سبب
پھول آنکھوں سے برسانے والے گئے اور میں رہ گیا

رحمتوں کا نگر شہر محبوب رب ہے جہاں سے قمر
جھولیاں بھر کے لوٹ آنے والے گئے اور میں رہ گیا

اُجالے کیوں نہ ہو دیوار و در میں

Ujaale kiyon na ho diwar o dar main

اُجالے کیوں نہ ہو دیوار و در میں
میں ذکرِ مصطفیٰ کرتا ہوں گھر میں

وہ جیسے ہیں کوئی ویسا نہیں ہے
یہی لکھا ہے تاریخِ بشر میں

مدینے جاؤں آؤں پھر سے جاؤں
خدا تا عمر رکھے اس سفر میں

چلا ہوں سوئے دربارِ رسالت
ہے میرے ساتھ اِک خوشبو سفر میں

یہاں بے مانگے ملتا ہے گدا کو
نہیں کوئی بھی در ایسا نظر میں

انہی کے نور سے تاباں ہے سورج
انہیں کی بھیک کشکول قمر میں

صبیح میں ہوں اُن کا نام لیوا
میرا نام بھی ہے اہلِ سخن میں

اتنا ملتا ہے کہ حساب نہیں

Itna Milta Hai Ke Hisaab Nahi


اتنا ملتا ہے کہ حساب نہیں
کون ہے وہ جو فیضیاب نہیں

نسبت مصطفےٰ سے سب کچھ ہے
ورنہ کوئی بھی کامیاب نہیں

آپ کردیں کرم تو بات بنے
ورنہ دیدار کی تو تاب نہیں

ہر نبی کا مقام اعلیٰ ہے
پر حضور آپ کا جواب نہیں

اتنے کر بیٹھا ہوں گناہ پہ گناہ
جس کا آقا کوئی حساب نہیں

جاکے طیبہ معین نعت پڑھوں
یہ حقیقت ہو کوئی خواب نہیں

کیسا وہ سماں ہوگا کیسی وہ گھڑی

کیسا وہ سماں ہوگا کیسی وہ گھڑی ہوگی
جب پہلی نظر اُن کےروضے پہ پڑی ہوگی

رشک آیا دو عالم کو اس وقت حلیمہ پر
آقا کو لگا سینے جب گھر کو چلی ہوگی

وابستہ جو ہوجائے سرکار کے قدموں سے
ہر چیز زمانے کی قدموں میں پڑی ہوگی

کیا سامنے جاکے ہم حال اپنا سنائیں گے
سرکار کا در ہوگا اشکوں کی لڑی ہوگی

وہ شیشۂ دل غم سے میلا نہ کبھی ہوگا
تصیورِ محمد ﷺ کی جس دل میں جڑی ہوگی

اُس کوچۂ جاناں میں آہستہ قدم رکھنا
ہر جا پہ ملائک کی بارات کھڑی ہوگی

چارانہ کوئی کرنا بس اِک نعت سنا دینا
نا چیز ظہوری کی جب سانس اڑی ہوگی

یا نبی دیکھا ہے رتبہ آپ کی نعلین

Ya Nabi Dekha Ye Rutba Aap Ki Naalen Ka


نعت خواں: محمد بلال قادری

یا نبی دیکھا ہے رتبہ آپ کی نعلین کا
عرش نے چوما ہے تلوا آپ کی نعلین کا

آپ کی خدمت کا مجھ کو کاش مل جاتا شرف
باندھتا آنکھوں سے تسمہ آپ کی نعلین کا

آپ کے قدموں کی نرمی قلب پر محسوس کی
جب بھی میں نے نقش دیکھا آپ کی نعلین کا

حشر میں جب لوگ چومیں آپ کا دستِ کرم
سب سے چھپ کر لوں میں بوسہ آپ کی نعلین کا

روزِ محشر سر پہ سورج جب سوا نیزے پہ ہو
ایک نیزے پہ ہو سایہ آپ کی نعلین کا

جس سے آگے جائیں تو جل جائیں پر جبریل کے
اُس سے آگے جانا دیکھا آپ کی نعلین کا

تاج کیوں نہ بھیک مانگے آپ کی نعلین کی
تاجور کھاتے ہیں صدقہ آپ کی نعلین کا

محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے

Mehboob Ki Mehfil Ko Mehbob Sajaate hain


نعت خواں: الحاج محمد اویس رضا قادری



نعت خواں: محمد خورشید احمد

محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں
آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں

جن کا بھری دنیا میں کوئی بھی نہیں والی
اُن کو بھی میرے آقا سینےسے لگاتے ہیں

وہ لوگ خدا شاہد قسمت کے سکندر ہیں
جو سرورِ عالم کا میلاد مناتے ہیں

جو شاہِ مدینہ کو لجپال سمجھتے ہیں
دامانِ طلب بھر کر محفل سے وہ جاتے ہیں

اس آس پہ جیتا ہوں کہدے یہ کوئی آکر
چل تجھ کو مدینے میں سرکار بلاتے ہیں

اللہ نے پہنچایا سرکار کے قدموں

Allah Ne Pohnchaya Sarkar Ke Wadmon Main


نعت خواں: الحاج صبیح رحمانی
کلام: صبیح رحمانی

اللہ نے پہنچایا سرکار کے قدموں میں
صد شکر میں پھر آیا سرکار کے قدموں میں

رد کیسے بھلا ہوگی اب کوئی دعا میری
میں رب کو پکار آیا سرکار کے قدموں میں

کچھ کہنے سے پہلے ہی پوری ہوئی ہر خواہش
جو سوچا وہی پایا سرکار کے قدموں میں

کچھ لمحے حضور ی کے پائے تو یہ لگتا ہے
اِک عمر گزار آیا سرکار کے قدموں میں

کچھ دیر سلامی کو ٹھہرایا مواجہ پر
پھر مجھ کو ادب لایا سرکار کے قدموں میں

مجھ جیسا تہی داماں کیا نذر کو لے جاتا
اِک نعت سنا آیا سرکار کے قدموں میں

یاد آئی صبیح اپنی ہر ایک خطاء مجھ کو
اعمال پہ شرمایا سرکار کے قدموں میں

یا محمد نورِ مجسم یا حبیبی یا مولائی

Ya Muhammad Noore Mujassam


نعت خواں: الحاج محمد اویس رضا قادری



نعت خواں: الحاج سعید ہاشمی
کلام: ادیب رائے پوری


یا محمد نورِ مجسم یا حبیبی یا مولائی
تصویر کمالِ محبت تنویرِ جمال خدائی

تیرا وصف بیاں ہو کس سے تیری کون کرے گا بڑائی
اس گردِ سفر میں گم ہے جبریل امیں کی رسائی

تیری ایک نظر کے طالب تیرے ایک سخن پہ قرباں
یہ سب تیرے دیوانے یہ سب تیرے شیدائی

یہ رنگ بہار گلشن یہ گل اور گل کا جوبن
تیرے نور قدم کا دھوون اس دھوون کی رعنائی

ما اجملک تیرے صورت مااحسنک تیری سیرت
مااکملک تیری عظمت تیرے ذات میں گم ہے خدائی

اے مظہر شان جمالی اے خواجۂ بندہ عالی
مجھے حشر میں کام آجاءے میرا ذوق سخن آرائی

تو رئیس روز شفاعت تو امیر لطف و عنایت
ہے ادیب کو تجھ سے نسبت یہ غلام ہے تو آقائی

آمنہ بی بی کے گلشن میں

Aamina Bibi Ke Gulshan Main Aai Hai Taaza Bahar

نعت خواں: الحاج محمد اویس رضا قادری


نعت خواں: سید صبیح رحمانی

اللہ اللہ اللہ ہو لاالٰہ الا ہو

آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار
پڑھتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم آج درودیوار
اللہ اللہ اللہ ہو لاالٰہ الا ہو

بارہ ربیع الاول کو آیا وہ درّ یتیم
ماہِ نبوت مہر رسالت صاحب خلق عظیم
اللہ اللہ اللہ ہو لاالٰہ الا ہو

اول و آخر سب کچھ جانے دیکھے بعید و قریب
غیب کی خبریں دینے والا اللہ کا وہ حبیب
اللہ اللہ اللہ ہو لاالٰہ الا ہو

حامد و محمود اور محمد دو جگ کے سردار
جان سے پیارا راج دلارا رحمت کی سرکار
اللہ اللہ اللہ ہو لاالٰہ الا ہو

آج آئے ہمارے رسولِ خدا

Hum Garibon Ki Qismat Sanwar Jaaye gi
ہم غریبوں کی قسمت سنور جائے گی
آج آئے ہمارے رسولِ خدا
رحمتوں سے تیری گود بھر جائے گی
آج آئے ہمارے رسولِ خدا

آج مہکا ہوا ہے چمن در چمن
آج ہر پھول پہ ہے انوکھی پھبند
آج غاروں نے بھی ترک کردی چبھن
گود میں ہے حلیمہ کے اک گل بدن
آج ہر سو مسرت بکھر جائے گی
آج آئے ہمارے رسولِ خدا

نوح کو جیسے کوئی سفینہ ملا
ہم غریبوں کو جنت کا زینہ ملا
گود میں آمنہ کی نگینہ ملا
اور نبوت کو احمد کا سینہ ملا
آج ہر شے مہکتی نظر آئے گی
آج آئے ہمارے رسولِ خدا

نور ایماں ملا روشنی کے لیے
ایک قمر مل گیا چاندنی کے لیے
زندگی مل گئی بندگی کے لیے
ایک در مل گیا بندگی کے لیے
اے زمیں تیری قسمت سنور جائیگی
آج آئے ہمارے رسولِ خدا

شانِ سرکارِ بطحٰہ بڑی چیز ہے

Shaane Sarkar e Batha Bari Cheez Hai

شانِ سرکارِ بطحٰہ بڑی چیز ہے
دونوں عالم کا آقا بڑی چیز ہے

میری لوحِ جبیں کی یہ قسمت کہاں
اُن کی خاکِ کفِ پا بڑی چیز ہے

چاند تاروں میں ایسے اُجالے کہاں
اُن کی جالی کا پردہ بڑی چیز ہے

اُن کے در کی حضوری کا کیا پوچھنا
اُن کے در کی تمنا بڑی چیز ہے

تاج دارانِ عالم کے کیا مرتبے
اُن کے در کا بھکاری بڑی چیز ہے

اے منور تجھے اور کیا چاہیے
اُن کے در کا سہارا بڑی چیز ہے

منگتے خالی ہاتھ نہ لوٹے کتنی

Mangte Khaali Haath Na Lote


نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری
کلام: خالد محمود نقشبندی


منگتے خالی ہاتھ نہ لوٹے کتنی ملی خیرات نہ پوچھو
اُن کا کرم پھر اُن کا کرم ہے اُن کے کرم کی بات نہ پوچھو

کُنتُ کنزاً راز مشیت جلوۂ اسریٰ نورِ ہدایت
جگمگ جگمگ دونوں عالم کیسی ہے وہ ذات نہ پوچھو

عشقِ نبی کونین کی دولت! عشقِ نبی بخشش کی ضمانت
اس سے بڑھ کر دستِ طلب میں ہے بھی کوئی سوغات نہ پوچھو

رشک جناں طیبہ کی گلیاں ہر ذرّہ فردوس بداماں
چاروں طرف انوار کا عالم رحمت کی برسات نہ پوچھو

ظاہر میں تسکینِ دل و جاں باطن میں معراج دل و جاں
نامِ نبی پھر نامِ نبی ہے نامِ نبی کی بات نہ پوچھو

حال اگر کچھ اپنا سُنایا اُن کے کرم کا شکوہ ہوگا
میں اپنے حالات میں خوش ہوں مجھ سے مرے حالات نہ پوچھو

تاجِ شفاعت سر پر پہنے حشر کا دولہا آ پہنچا ہے
آنکھیں کھولو غور سے دیکھو کس کی ہے بارات نہ پوچھو

میں کیا اور کیا میری حقیقت سب کچھ ہے سرکار کی نسبت
میں تو برا ہوں لیکن میری لاج ہے کس کے ہاتھ نہ پوچھو

خالد میں صرف اتنا کہوں گا جاگ اُٹھا اشکوں کا مقدر
عشقِ نبی میں روتے روتے کیسے کٹی ہے رات نہ پوچھو

کوئی سلیقہ ہے آرزو کا

کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے

کسی کا احسان کیوں اُٹھائیں کسی کو حالات کیوں بتاءیں
تمھیں سے مانگیں گے تم ہی دو گے تمھارے در سے ہی لو لگی ہے

تجلیوں کے کفیل تم ہو مرادِ قلبِ خلیل تم ہو
خدا کی روشن دلیل تم ہو یہ سب تمہاری ہی روشنی ہے

تمہیں ہو روحِ روانِ ہستی سکوں نظر کا دلوں کی مستی
ہے دو جہاں کی بہار تم سے تمہیں سے پھولوں میں تازگی ہے

شعور و فکر و نظر کے دعوے حدِ تعین سے بڑھ نہ پائے
نہ چھو سکے اِن بلندیوں کو جہاں مقامِ محمدی ہے

نظر نظر رحمتِ سراپا ادا ادا غیرتِ مسیحا
ضمیرِ مردہ بھی جی اُٹھے ہیں جِدھر تمہاری نظر اُٹھی ہے

عمل کی میرے اساس کیا ہے بجز ندامت کے پاس کیا ہے
رہے سلامت تمہاری نسبت مرا تو اک آسرا یہی ہے

عطا کیا مجھ کو دردِ اُلفت کہاں تھی یہ پُر خطا کی قسمت
میں اس کرم کے کہاں تھا قابل حضور کی بندہ پروری ہے

اُنہی کے در سے خدا ملا ہے انہیں سے اس کا پتہ چلا ہے
وہ آئینہ جو خدا نما ہے جمالِ حسن حضور ہی ہے

بشیر کہیے نذیر کہیے انہیں سراجِ منیر کہیے
جو سَر بَسر ہے کلامِ ربی وہ میرے آقا کی زندگی ہے

ثنائے محبوبِ حق کے قرباں سرورِ جاں کا یہی ہے عُنواں
ہر ایک مستی فنا بداماں یہ کیف ہی کیفِ سرمدی ہے

ہم اپنے اعمال جانتے ہیں ہم اپنی نسبت سے کچھ نہیں ہیں
تمہارے در کی عظیم نسبت متاعِ عظمت بنی ہوئی ہے

یہی ہے خالد اساسِ رحمت یہی ہے خالد بنائے عظمت
نبی کا عرفان زندگی ہے نبی کا عرفان بندگی ہے

Thursday, August 13, 2009

روک لیتی ہے آپ کی نسبت

روک لیتی ہے آپ کی نسبت تیر جتنے بھی ہم پہ چلتے ہیں
یہ کرم ہے حضور کا ہم پر آنے والے عذاب ٹلتے ہیں

ہیں کریم وکرم خصال وہی بھیک دیتے ہیں حسبِ حال وہی
اُن کو آتا نہیں زوال کبھی قسمتیں جن کی وہ بدلتیں ہیں

اب کوئی کیا ہمیں گرائے گا ہر سہارا گلے لگائے گا
ہم نے خود کو گرا لیا ہے وہاں گرنے والے جہاں سنبھلتے ہیں

وہی بھرتے ہیں جھولیاں سب کی وہ سمجھتے ہیں بولیاں سب کی
آؤ بازار مصطفیٰ کو چلیں کھوٹے سکے وہیں پہ چلتے ہیں

ذکر سرکار کے حوالوں کو بے نہایت ہیں رفعتیں خالد
یہ اُجالے نہیں جو سمٹیں گے یہ وہ سورج نہیں جو ڈھلتے ہیں

اپنی نسبت سے میں کچھ نہیں ہوں

اپنی نسبت سے میں کچھ نہیں ہوں اِس کرم کی بدولت بڑا ہوں
اُن ٹکڑوں سے اعزاز پاکر تاجداروں کی صف میں کھڑا ہوں

دیکھتا ہوں جب اُن کی عطائیں بھول جاتا ہوں اپنی خطائیں
سر ندامت سے اُٹھتا نہیں ہے جب میں اپنی طرف دیکھتا ہوں

دیکھنے والوں مجھ کو نہ دیکھو دیکھنا ہے اگر تو یہ دیکھو
کس کے دامن سے وابستہ ہوں میں کون والی ہے کس کا گدا ہوں

اِس کرم کو مگر کیا کہو گے میں نے مانا میں سب سے برا ہوں
جو بروں کو سمیٹے ہوئے ہیں اُن کے قدموں میں میں بھی پڑا ہوں

شافع مذنباں کے کرم نے لاج رکھ لی میرے کھوٹے پن کی
نسبتوں کا کرم ہے یہ خالد کھوٹا ہوتے ہوئے بھی کھرا ہوں

ہے تیری عنایات کا ڈیرہ میرا گھر

hai teri inayat ka dera mere ghar main


نعت خواں: الحاج صبیح احمد صبیح رحمانی
کلام: خالد محمود نقشبندی
ہے تیری عنایات کا ڈیرہ میرا گھر میں
سب تیرا ہے کچھ بھی نہیں میرا میرے گھر میں

مدت سے میرے دل میں ہے ارمانِ زیارت
ہوجائے کرم کا کوئی پھیرا میرے گھر میں

دروازے پہ لکھا ہے تیرا اِسمِ گرامی
آتا نہیں بھولے سے اندھیرا میرے گھر میں

انداز میرے گھر کے تو کچھ اور ہی ہوں گے
جس روز قدم آئے گا تیرا میرے گھر میں

جاگا تیری نسبت سے شبِ غم کا مقدر
آیا تیرے آنے سے اُجالا میرے گھر میں

خالد کو تیرے در سے توقیر ملی ہے
سب کچھ ہے یہ احسان ہے تیرا میرے گھر میں

حاضر ہیں درِ دولت پہ گدا

Hazir hain dare dolat pe gada


نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری

حاضر ہیں درِ دولت پہ گدا سرکار توجہ فرمائیں
محتاجِ نظر ہے حال میرا سرکار توجہ فرمائیں

میں کرکے ستم اپنی جاںپر جاؤکَ لبِ حق سےسن کر
آیا ہوں بہت شرمندہ سا سرکار توجہ فرمائیں

میں کب آنے کے قابل تھا رحمت نے یہاں تک پہنچایا
سرکار پہ تن من جان فدا سرکار توجہ فرمائیں

اِ ک میں ہی نہیں پوری اُمت ساری دنیا ساری خلقت
تکتی ہے رستہ رحمت کا سرکار توجہ فرمائیں

تیری خوشبو میری چادر



نعت خواں: سید محمد فرقان قادری



نعت خواں: تسلیم احمد صابری

وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ
تیری خوشبو میری چادر
تیرے تیور میرا زیور
تیرا شیوا میرا مسلک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

میری منزل تیری آہٹ
میرا سدرہ تیری چوکھٹ
تیری گاگر میرا ساگر
تیرا سحرا میرا پنگھٹ
میں ازل سے تیرا پیاسا
نہ ہو خالی میرا کاسہ
تیرے باری تیرا بالک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

تیری مدحت میری بولی
تو خزانہ میں ہوں جھولی
تیرا سایہ میری کایہ
تیرا جھونکہ میری ڈولی
تیرا رستہ میرا ہادی
تیری یادیں میری وادی
تیرے ذرے میرے دیپک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

ترے دم سے دلِ وینہ
کبھی فارا کبھی سینہ
نہ ہو کیوں پھر تیری خاطر
میرا مرنا میرا جینا
یہ زمیں بھی ہو فلک سی
نظر آئے جو دھنک سی
تیرے در سے میری جاں تک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

میں ہوں قطرہ تو سمندر
میری دنیا تیرے اندر
سگے داتا میرا ناطا
نہ ولی ہوں نہ قلندر
تیرے قدموں میں پڑے ہیں
میرے جیسے تو بڑے ہیں
کوئی تجھ سا نہیں بے شک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

میں ادھورا تو مکمل
میں شکستہ تو مسلسل
میں سخن ور تو پیمبر
میرا مکتب تیرا اِک پل
تیری جنبش میرا خامہ
تیرا نقطہ میرا نامہ
کیا تو نے مجھے زیرک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

میری سوچیں ہیں سوالی
میرا لہجہ ہو بلالی
شبِ تیرا کرے خِیرا
میرے دن بھی ہو مثالی
تیرا مظہر ہو میرا فن
رہے اُجلا میرا دامن
نہ ہو مجھ میں کوئی کالک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

مرحبا یا رسول اللہ ہم تیرے ہیں

مرحبا یا رسول اللہ ہم تیرے ہیں

تیری عقیدت ہے ایمانِ کامل
تجھ سے محبت ہے ایمانِ کامل
تجھ سے ہی ملتی ہیں جنت کی راہیں

فکر و نظر میں چراغاں تجھی سے
گلشن میں رقساں بہاراں تجھی سے
پھر کیوں نہ آمد کے نغمے سنائیں

غائب بھی تو ہے حاضر بھی تو ہے
اول بھی تو ہے آخر بھی تو ہے
بے دَور تجھ سے ہماری نگاہیں

وجدانِ برنقش ہو نام تیرا
ہونٹوں پہ مہکا رہے نام تیرا
اِسمِ محمد سے دل جگمگائیں

اِسلام کے نام پر ہم فدا ہیں
ناموس آقا پہ جانیں فدا ہیں
عزت پہ تیری جوانی لُٹائیں

شبیر و شبّر نواسے ہیں تیرے
حیدر علی فاطمہ بھی ہیں تیرے
چاروں چراغوں میں تیری ضیا ہے

تیری بدولت ہے عزت ہماری
ہم تیرے ہیں یوں ہے جنت ہماری
یہ ہے اُجاگر کے من کی سدائیں

سوزِ دل چاہیے چشمِ نم چاہیے

سوزِ دل چاہیے چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے
ہومیسر مدینے کی گلیاں اگر آنکھ کافی نہیں ہے نظر چاہیے

اُن کی محفل کے آداب کچھ اور ہیں لب کشائی کی جراٴت مناسب نہیں
اُن کے سرکار میں التجا کی لیے جنبش لب نہیں چشمِ تر چاہیے

رونقیں زندگی کی بہت دیکھ لیں اب میں آنکھوں کا اپنی کروں کا بھی کیا
اب نہ کچھ گفتنی ہے نہ کچھ دیدنی مجھ کو آقا کی بس اِک نظر چاہیے

میں گدائے درِ شان کونین ہوں شیش محلوں کی مجھ کو تمنا نہیں
ہو میسر زمیں پر کہ زیرِ زمیں مجھ کو طیبہ میں اِک اپنا گھر چاہیے

گوشہ گوشہ مدینے کا پُر نور ہے سارا ماحول جلووں سے معمور ہے
شرط یہ ہے کہ ظرفِ نظر چاہیے دیکھنے کے لیے دید ور چاہیے

مدحتِ سرورِ دوجہاں کے لیے صرف لفظ و وِلا کا سہارا نہ لو
فنِّ شعری ہے اقبال اپنی جگہ نعت کہنے کو خون و جگر چاہیے

Tuesday, August 11, 2009

لب پر نعتِ پاک کا نغمہ

Lub par naat-e-paak ka naghma


نعت خواں: قاری وحید ظفر قاسمی
کلام: صبیح رحمانی


لب پر نعتِ پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
میرے نبی سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

فکر نہیں ہے ہم کو کچھ بھی دُکھ کی دھوپ کڑی تو کیا
ہم پر اُن کے فضل کا سایہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

بتلا دو گستاخِ نبی کو غیرتِ مسلم زندہ ہے
دین پہ مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

اور کسی جانب کیوں جائیں اور کسی کو کیوں دیکھیں
اپنا سب کچھ گنبد خضریٰ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

پست وہ کیسے ہوسکتا ہے جس کو حق نے بلند کیا
دونوں جہاں میں اُن کا چرچا کل بھی تھا اور آج بھی ہے

جن آنکھوں سے طیبہ دیکھا وہ آنکھیں بے تاب ہیں پھر
ان آنکھوں میں ایک تقاضا کل بھی تھا اور آج بھی ہے

اُن کے در سے سب ہو آئے جا نہ سکا تو ایک صبیح
یہ ہے اک تصویر تمنا کل بھی تھا اور آج بھی ہے

اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں

Aub meri nigahon main jachta nahi koi


نعت خواں: الحاج فصیح الدین سہروردی
کلام: خالد محمود نقشبندی


اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی

تم سا تو حسیں آنکھ نے دیکھا نہیں کوئی
یہ شانِ لطافت ہے کہ سایہ نہیں کوئی

اے ظرفِ نظر دیکھ مگر دیکھ ادب سے
سرکار کا جلوہ ہے تماشا نہیں کوئی

یہ تجربہ ایمان ہے اے رحمتِ عالم
فریاد تمہارے سوا سنتا نہیں کوئی

یہ طُور سے کہتی ہے ابھی تک شبِ معراج
دیدار کی طاقت ہو تو پروا نہیں کوئی

وہ آنکھ جو روتی ہے غمِ عشقِ نبی میں
اس آنکھ سے رو پوش تو جلوہ نہیں کوئی

سوچو تو کبھی نسبتِ رحمت کے نتائج
تسلیم کہ ہم لوگوں میں اچھا نہیں کوئی

شمشیر وسیلہ ہے سپر رحمتِ حق ہے
سرکار کی امت میں نہتا نہیں کوئی

بیکار ہے ہر وار ترا گردشِ دوراں
وہ ہمدم و غمخوار ہیں تنہا نہیں کوئی

اعزاز یہ حاصل ہے تو حاصل ہے زمیں کو
افلاک پہ تو گنبدِ خضریٰ نہیں کوئی

ہوتا ہے جہاں ذکر محمد کے کرم کا
اس بزم میں محرومِ تمنا نہیں کوئی

درمانِ غم و در و شفائے دلِ بیمار
جز آپ کے اسے جانِ مسیحا نہیں کوئی

سرکار کی رحمت نے مگر خوب نوازا
یہ سچ ہے کہ خالد سا نکما نہیں کوئی

کوئے نبی سے آ نہ سکے ہم



نعت خواں: ذوالفقار علی
کلام: احمد علی حاکم

کوئے نبی سے آ نہ سکے ہم راحت ہی کچھ ایسی تھی
یاد رہی نہ جنت ہم کو وہ جنت ہی کچھ ایسی تھی

تکتے رہے یوسف جیسے بھی حشر میں اُن کے چہرے کو
جب پوچھا تو کہنے لگے وہ صورت ہی کچھ ایسی تھی

پاس بُلایا پاس بٹھایا جلوہ دِکھایا خالق نے
یہ تو آخر ہونا ہی تھا چاہت ہی کچھ ایسی تھی

دُنیا میں سرکار کی نعتیں پڑھتے رہے ہر اِک لمحہ
قبر میں بھی تھی نعت لبوں پر عادت ہی کچھ ایسی تھی

قبر میں حاکم جب پہنچے تو ہنس کے نکیروں نے دیکھا
کیوں نہ فرشتے پیار سے ملتے وہ نسبت ہی کچھ ایسی تھی

منتظر ہوں شہہ والا کی اجازت

منتظر ہوں شہہ والا کی اجازت کے لیے
دل ہے بے چین مدینے کی زیارت کے لیے

الفتِ رحمتِ کونین کا دل میں ہونا
اولیں شرط ہے ایماں کی صداقت کے لیے

بھیج کر سارے نبی اور رسل برحق
حق نے بھیجا انھیں تکمیل رسالت کے لیے

منتخب کرلیا سب نبیوں رسولوں میں انھیں
ان کے معبود نے اقصیٰ کی امامت کے لیے

ان کو ڈھونڈیں گے گنہگار سفارش کے لیے
وہ گنہگاروں کو ڈھونڈیں گے شفاعت کے لیے

جز محمدﷺ کی شفاعت کے بھروسے کے سوا
کوئی توشہ نہیں ہنگام قیامت کے لیے

ان کی اطاعت میں ہے معبود کی اطاعت مضمر
ان کی اطاعت کرو خالق کی اطاعت کے لیے

نام سلطان مدینہ کا سکندر ہر دم
درد رکھتا ہوں میں خود اپنی حفاظت کے لیے

تقدیر سنور جائے سرکار

Taqdeer sanwar jaaye sarkar ke qadmon main


نعت خواں: الحاج صبیح احمد صبیح رحمانی

تقدیر سنور جائے سرکار کے قدموں میں
یہ جان اگر جائے سرکار کے قدموں میں

اِک بار رکھوں اُن کے قدموں میں یہ سر اپنا
پھر عمر گزر جائے سرکار کے قدموں میں

جلتے ہوئے سینے میں ٹھنڈک سی اُتر جائے
دل خوشبو سے بھر جائے سرکار کے قدموں میں

یہ کیف کی حسرت ہے ڈھل جائے وہ خوشبو میں
اور جاکے بکھر جائے سرکار کے قدموں میں

Monday, August 10, 2009

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا

Subha Teba Main Hui


نعت خواں: الحاج محمس اویس رضا قادری
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ


صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صَدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا

باغِ طیبہ میں سُہانا پھول پھولا نور کا
مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا

بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا ایک اک ستارہ نور کا

عرش بھی فردوس بھی اس شاہ والا نور کا
یہ مثمّن بُرج وہ مشکوئے اعلیٰ نور کا

تیرے ہی ماتھے رہا اسے جان سہرا نور کا
بخت جاگا نور کا چمکا سِتارا نور کا

میں گدا تو بادشاہ بھردے پیالہ نور کا
نور دن دو نا تِرا دے ڈال صدقہ نور کا

تیری ہی جانب ہے پانچوں وقت سجدہ نور کا
رُخ ہے قبلہ نور کا ابرو ہے کعبہ نور کا

پشت پر ڈھلکا سرِ انور سے شملہ نور کا
دیکھیں موسیٰ طور سے اُترا صحیفہ نور کا

تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا
سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا

پیچ کرتا ہے فدا ہونے کو لمعہ نور کا
گردِسر پھرنے کو بنتا ہے عمامہ نور کا

شمع دِل مشکوٰۃ تن سینہ زجاجہ نور کا
تیری صورت کے لیے آیا ہے سُورہ نور کا

مَیل سے کس درجہ ستھرا ہے وہ پتلا نور کا
ہے گلے میں آج تک کو راہی کرتا نور کا

تیرے آگے خاک پر جھکتا ہے ماتھا نور کا
نور نے پایا ترے سجدے سے سیما نور کا

تو ہے سایہ نورکا ہر عضو ٹکڑا نور کا
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا

کیا بنا نامِ خدا اسرا کا دُولھا نور کا
سر پہ سہرا نور کابر میں شہانہ نور کا

بزمِ وحدت میں مزا ہوگا دوبالا نور کا
ملنے شمعِ طور سے جاتا ہے اِکّا نور کا

وصفِ رخ میں گاتی ہیں حوریں ترا نہ نور کا
دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا نہ بھالا نور کا

صبح کردی کفر کی سچّا تھا مژدہ نور کا
شام ہی سے تھا شبِ تیرہ کو دھڑکا نور کا

پڑتی ہے نوری بھرن امڈا ہے دریا نور کا
سر جھکا اے کشتِ کفر آتا ہے ابلا نور کا

ناریوں کا دَور تھا دل جل رہا تھا نور کا
تم کو دیکھا ہوگیا ٹھنڈا کلیجا نور کا

جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا
نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا

بھیک لے سرکار سے لا جَلد کاسہ نور کا
ماہِ نو طیبہ میں بٹتا ہے مہینہ نور کا

شمع ساں ایک ایک پَروانہ ہے اس بانور کا
نورِ حق سے لو لگائے دل میں رشتہ نور کا

تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا

نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
مانگتا پھرتا ہے آنکھیں ہر نگینہ نور کا

اب کہاں وہ تابشیں کیسا وہ تڑکا نور کا
مہر نے چھپ کر کیا خاصا دھند لکا نور کا

تم مقابل تھے تو پہروں چاند بڑھتا نور کا
تم سے چھٹ کر منھ نکل آیا ذرا سا نور کا

آنکھ مِل سکتی نہیں دَر پر ہے پہرا نور کا
تاب ہے بے حکم پَر مارے پرندہ نور کا

نزع میں لوٹے گا خاکِ در پہ شیدا نور کا
مَر کے اوڑھے گی عروسِ جاں دوپٹا نور کا

تابِ مہرِ حشر سے چَونکے نہ کشتہ نورکا
بوندیاں رحمت کی دینے آئیں چھینٹا نور کا

وضع واضع میں تِری صورت ہے معنی نور کا
یوں مجازاً چاہیں جس کو کہہ دیں کلمہ نور کا

انبیا اجزا ہیں تُو بالکل ہے جملہ نور کا
اس علاقے سے ہے اُن پر نام سچّا نور کا

یہ جو مہرو مَہ پہ ہے اطلاق آتا نور کا
بھیک تیرے نام کی ہے استعارہ نور کا

تاب ہم سے چَوندھیا کر چاند انھیں قدموں پھرا
ہنس کے بجلی نے کہا دیکھا چھلاوا نور کا

چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں
کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھِلونا نور کا

کٓ گیسوہٰ دہن یٰ ابرو آنکھیں عٓ صٓ
کٓھٰیٰعٓصٓ اُن کا ہے چہرہ نور کا

اے رضا یہ احمدِ نوری کا فیض نور ہے
ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا

اُٹھادو پردہ دکھا دو چہرہ

Uthado parda dikha do chehra


نعت خواں: الھاج محمد اویس رضا قادری



نعت خواں: الحاج فصیح الدین سہروردی
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ

اُٹھادو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے

نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما
غضب سے اُن کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے

جلی جلی بو سے اُس کی پیدا ہے سوزشِ عِشقِ چشم والا
کبابِ آہو، میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے

انھیں کی بو مایہٴ سمن ہے انھیں کا جلوہ چمن چمن ہے
انھیں سے گلشن مہک رہے ہیں انھیں کی رنگت گلاب میں ہے

سیہ لباسانِ دار دنیا و سبز پوشانِ عرش اعلےٰ
ہر اِک ہے ان کے کرم کا پیاسا یہ فیض اُن کی جناب میں ہے

وہ گل ہیں لب ہائے نازک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے
گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے

جلی ہے سوزِ جگر سے جاں تک ہے طالبِ جلوہٴ مُبارک
دکھادو وہ لب کہ آب حیواں کا لطف جن کے خطاب میں ہے

کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یاور!
بچالو آکر مِرے پیمبر کہ سخت مشکل جواب میں ہے

خدائے قہّار ہے غضب پر کھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر
بچالو آکر شفیع محشر تمہَارا بندہ عذاب میں ہے

کریم ایسا ملا کہ جس کے کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے
بتاوٴ اے مفلسو! کہ پھر کیوں تمہارا دل اضطراب میں ہے

کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیم بے قدر کو نہ شرما
تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے

وہ کمَال حسنِ حضور ہے

Wo kamal husn e huzoor hai
Part 1

Part 2


نعت خواں: الحاج محمد اویس رضا قادری
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ


وہ کمَال حسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کِس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں

بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منھ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

ہے انھیں کے نور سے سب عیاں ہے انھیں کے جلوہ میں سب نہاں
بنے صبح تابش مہر سے رہے پیش مہر یہ جاں نہیں

وہی نورِ حق وہی ظلِّ رب ہے انھیں سے سب ہے انھیں کا سب
نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں

وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

ترا قد تو نادرِ دہر ہے کوئی مِثل ہو تو مثال دے
نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سر وچماں نہیں

نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کوگل کہے کیا بنی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں

کروں مدح اہلِ دول رضا پڑے اِس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین پارہٴ ناں نہیں

واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا

واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا

فرش والے تیری شوکت کا عُلو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیراب
سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا

تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

خوار و بیمار و خطاوار و گنہ گار ہوں میں
رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا

میری تقدیر بُری ہو تو بھلی کردے کہ ہے
محو و اثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا

تیرے صدقے مجھے اِک بوند بہت ہے تیری
جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مِرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

ان کی مہک نے دل کے

Un ki mehak ne dil ke gunche khila diye hain


نعت خواں: الحاج محمد اویس رضا قادری



نعت خواں: الحاج فصیح الدین سہروردی
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ


ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلادیے ہیں
جس راہ چل گئے ہیں، کوچے بسا دیے ہیں

جب آگئی ہیں جوشِ رحمت پہ ان کی آنکھیں
جلتے بجھادیے ہیں، روتے ہنسا دیے ہیں

اِک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا
تم نے تو چلتے پھرتے مُردے جِلادیے ہیں

ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آگئے ہیں سب غم بھلادیے ہیں

ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گے
اب تو غنی کے در پر بستر جمادیے ہیں

اسرا میں گزرے جس دم بیڑے پہ قدسیوں کے
ہونے لگی سلامی، پرچم جھکادیے ہیں

آنے دو یا ڈبو دو اب تو تمہاری جانب
کشتی تمہی پہ چھوڑی لنگر اٹھادیے ہیں

دولہا سے اتنا کہہ دو پیارے سواری روکو
مشکل میں ہیں براتی پرخار بادیے ہیں

اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا
رو رو کے مصطفی نے دریا بہادیے ہیں

میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہادیے ہیں دُر بے بہا دیے ہیں

ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھادیے ہیں

پل سے اتارو راہ گزر کو خبر

Pul se utaro rah guzar ko khabar na ho


نعت خواں: الحاج محمد فصیح الدین سہروردی
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ


پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو
جبریل پر بچھائیں تو پر کو خبر نہ ہو

کانٹا مِرے جگر سے غمِ روزگار کا
یوں کھینچ لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو

فریاد امتی جو کرے حالِ زار میں
ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو

کہتی تھی یہ بُراق سے اُس کی سبک روی
یوں جایئے کہ گردِ سفر کو خبر نہ ہو

ایسا گُمادے ان کی وِلا میں خدا ہمیں
ڈھونڈھا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو

آ دِل حرم کو روکنے والوں سے چھپ کے آج
یوں اٹھ چلیں کہ پہلو و بر کو خبر نہ ہو

اے شوقِ دل یہ سجدہ گر ان کو روا نہیں
اچھا وہ سجدہ کیجیے کہ سر کو خبر نہ ہو

ان کے سوا رضا کوئی حامی نہیں جہاں
گزرا کرے پسر پہ پدر کو خبر نہ ہو

پیش حق مثردہ شفاعت کا سناتے

Peshe haq muzda shafaat


نعت خواں: الحاج محمد اویس رضا قادری
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ


پیش حق مثردہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے

آج عید عاشقاں ہے گرخداچاہے کہ وہ
ابروئے پیوستہ کا عالم دکھاتے جائیں گے

کچھ خبر بھی ہے فقیر وآج وہ دن ہے کہ وہ
نعتِ خلد اپنے صَدقے میں لٹاتے جائیں گے

خاک افتادوبس اُن کے آنے ہی کی دیر ہے
خود وہ گرکر سجدہ میں تم کو اٹھا تے جائیں گے

وسعتیں دی ہیں خدانے دامنِ محبوب کو
جرم کھلتے جائیں گے اور وہ چھپاتے جائیں گے

آفتاب ان کا ہی چمکے گاجب اور وں کے چراغ
صرِصرِ جوشِ بلا سے جھلملاتے جائیں گے

پائے کو باں پل سے گزریں گے تری آوازپر
رَبِّ سَلِّمْکی صَدا پر وَجد لاتے جائیں گے

سرورِدیں لیجئے اپنے ناتوانوں کی خبر
نفس وشیطاں سیّد اکب تک دباتے جائیں گے

حشرتک ڈالیں گے ہم پیدائش مولیٰ کی دھوم
مثِل فارِس نجد کے قلعے گراتے جائیں گے

خاکی ہوجائیں عدو جل کر مگر ہم تو رضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر اُن کا سناتے جائیں گے

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب

chamak tujh se paate hain


نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ


چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
مرا دل بھی چمکادے چمکانے والے

برستا نہیں دیکھ کر ابرِ رحمت
بدوں پر بھی برسادے برسانے والے

مدینہ کے خطّے خُدا تجھ کو رکھے
غریبوں فقیروں کے ٹھرانے والے

تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

میں مجرم ہوں آقا مجھے ساتھ لے لو
کہ رستے میں ہیں جابجا تھانے والے

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے

چل اٹھ جہہ فرسا ہو ساقی کے در پر
درِ جود اے میرے مستانے والے

تِرا کھائیں تیرے غلاموں سے الجھیں
ہیں منکر عجب کھانے غرّانے والے

رہے گا یوں ہیں ان کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہوجائیں جل جانے والے

اب آئی شفاعت کی ساعت اب آئی
ذرا چین لے میرے گھبرانے والے

رضا نفس دشمن ہے دَم میں نہ آنا
کہاں تم نے دیکھے ہیں چندرانے والے

وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر

وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے

وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھیں دھومیں
اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے

نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرِ عیاں ہوں معنیِ اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کرگئے تھے

بڑھ اے محمد قریں ہو احمد قریب آ سرورِ ممجد
نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے

تبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوشِ لَنْ تَرانی، کہیں تقاضے وصال کے تھے

اٹھے جو قصرِ دنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جاہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے

حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے

وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے

نبیِ رحمت شفیعِ امت رضا پہ للہ ہو عنایت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے

ثنائے سرکار ہے وظیفہ، قبولِ سرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا، روی تھی کیا کیسے قافیے تھے

عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں

aarize shams o kamar se


نعت خواں: الحاج محمد اویس رضا قادری
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ


عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں
عرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں

جابجا پرتوفگن ہیں آسماں پر ایڑیاں
دن کو ہیں خورشید، شب کو ماہ و اختر ایڑیاں

نجم گردوں تو نظر آتے ہیں چھوٹے اور وہ پاؤں
عرش پر پھر کیوں نہ ہوں محسوس لاغر ایڑیاں

دب کے زیرِ پا نہ گنجایش سمانے کو رہی
بن گیا جلوہ کفِ پا کا ابھر کر ایڑیاں

ان کا منگتا پاؤں سے ٹھکرادے وہ دنیا کا تاج
جس کی خاطر مرگئے مُنْعَمْ رگڑ کر ایڑیاں

دو قمر دو پنجہٴ خور دو ستارے دس ہلال
ان کے تلوے پنجے ناخن پائے اطہر ایڑیاں

ہائے اس پتھر سے اس سینہ کی قسمت پھوڑیئے
بے تکلف جس کے دل میں یوں کریں گھر ایڑیاں

تاج روح القدس کے موتی جسے سجدہ کریں
رکھتی ہیں واللہ وہ پاکیزہ گوہر ایڑیاں

ایک ٹھوکر میں احد کا زلزلہ جاتا رہا
رکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں

چرخ پر چڑھتے ہی چاندی میں سیاہی آگئی
کرچکی ہیں بدر کو ٹکسال باہر ایڑیاں

اے رضا طوفانِ محشر کے طلاطم سے نہ ڈر
شاد ہو، ہیں کشتیٴ امت کو لنگر ایڑیاں

پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے

Poochte kia ho arsh per


ںعت خواں: الحاج محمس اُویس رضا قادری
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ


پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفی کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں

قصرِ دنیٰ کے راز میں عقلیں تو گُم ہیں جیسی ہیں
رُوحِ قدس سے پوچھئے تم نے بھی کچھ سنا کہ یوں

میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیں
صبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دِکھا دیا کہ یوں

ہائے رے ذوقِ بے خودی دل جو سنبھلنے سا لگا
چھک کے مہک میں پھول کی گرنے لگی صبا کہ یوں

دل کو دے نور و داغِ عشق پھر میں فدا دو نیم کر
مانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں

دل کو ہے فکر کس طرح مُردے جلاتے ہیں حضور
اے میں فِدا لگا کر ایک ٹھوکر اسے بتا کہ یوں

باغ میں شکرِ وصال تھا، ہجر میں ہائے ہائے گل
کام ہے ان کے ذکر سے خیر وہ یوں ہوا کہ یوں

جو کہے شعر و پاسِ شرع دونوں کا حسن کیونکر آئے
لا اسے پیشِ جلوۂ زمزمۂ رضا کہ یوں

سنتے ہیں کہ محشر میں

Sunte hain ke mehshar main


ںعت خواں: الحاج محمد فصیح الدین سہروردی
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ


سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے
گر اُن کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے

مچلا ہے کہ رحمت نے امید بندھائی ہے
کیا بات تِری مجرم کیا بات بَنائی ہے

سب نے صفِ محشر میں للکار دیا ہم کو
اے بے کسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے

یوں تو سَب انھیں کا ہے پَر دل کی اگر پوچھو
یہ ٹوٹے ہوئے دل ہی خاص اُن کی کمائی ہے

زائر گئے بھی کب کے دِن ڈھلنے پہ ہے پیارے
اٹھ میرے اکیلے چل کیا دیر لگائی ہے

بازارِ عمل میں تو سودا نہ بنا اپنا
سرکارِ کرم تجھ میں عیبی کی سَمائی ہے

گرتے ہووں کو مژدہ سجدے میں گرے مولیٰ
رو رو کے شفاعت کی تمہید اٹھائی ہے

اے دل یہ سلگنا کیا جلنا ہے تو جل بھی اٹھ
دَم گھٹنے لگا ظالم کیا دھونی رَمائی ہے

مجرم کو نہ شرماوٴ احباب کفن ڈھک دو
منھ دیکھ کہ کیا ہوگا پردے میں بھلائی ہے

اب آپ ہی سنبھالیں تو کام اپنے سنبھل جائیں
ہم نے توکمائی سب کھیلوں میں گنوائی ہے

اے عشق تِرے صدقے جلنے سے چُھٹے سَستے
جو آگ بجھادے گی وہ آگ لگائی ہے

حرص و ہوسِ بد سے دل تو بھی ستم کرلے
تو ہی نہیں بے گانہ دنیا ہی پَرائی ہے

ہم دل جلے ہیں کس کے ہَٹ فتنوں کے پر کالے
کیوں پھونک دوں اِک اُف سے کیا آگ لگائی ہے

طیبہ نہ سہی افضل مکّہ ہی بڑا زاہد
ہم عِشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے

مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف اُن کی رسائی ہے صرف اُن کی رسائی ہے

ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا

Hum Khaak Hain Aur Khak Hi Maawa Hai Hamara


نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری
کلام: امامِ اہلِسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی


ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
خاکی تو وہ آدم جدِ اعلیٰ ہے ہمارا

اللہ ہمیں خاک کرے اپنی طلب میں
یہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا

جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سیّدِ عالم
اس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا

خم ہوگئی پشتِ فلک اس طعنِ زمیں سے
سن ہم پہ مدینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا

اس نے لقبِ خاک شہنشاہ سے پایا
جو حیدرِ کرار کہ مولےٰ ہے ہمارا

اے مدّعیو! خاک کو تم خاک نہ سمجھے
اس خاک میں مدفوں شہِ بطحا ہے ہمارا

ہے خاک سے تعمیر مزارِ شہِ کونین
معمور اسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا

ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائی
آباد رضا جس پہ مدینہ ہے ہمارا

مژدہ باد اے عاصیو!

Muzda baad ae Aasiyon

مژدہ باد اے عاصیو! شافع شہِ ابرار ہے
تہنیت اے مجرمو! ذاتِ خدا غفّار ہے

عرش سا فرشِ زمیں ہے فرشِ پا عرشِ بریں
کیا نرالی طرز کی نامِ خدا رفتار ہے

چاند شق ہو پیڑ بولیںجانور سجدے کریں
بَارَکَ اللہ مرجعِ عالم یہی سرکار ہے

جن کو سوے آسماں پھیلا کے جل تھل بھر دیے
صَدقہ اُن ہاتھوں کا پیارے ہم کو بھی درکار ہے

لب زلالِ چشمہٴ کُن میں گندھے وقتِ خمیر
مُردے زندہ کرنا اے جاں تم کو کیا دشوار ہے

گورے گورے پاؤں چمکا دو خد ا کے واسطے
نور کا تڑکا ہو پیارے گور کی شب تار ہے

تیرے ہی دامن پہ ہر عاصِی کی پڑتی ہے نظر
ایک جانِ بے خطا پر دو جہاں کا بار ہے

جوشِ طوفاں بحرِ بے پایاں ہوا نا سازگار
نوح کے مولیٰ کرم کر لے تو بیڑا پار ہے

رحمَۃٌ لِلعَالمین تیری دہائی دب گیا
اب تو مولیٰ بےطرح سر پر گنہ کا بار ہے

گونج گونج اٹھے ہیں نغماتِ رضا سے بوستاں
کیوں نہ ہو کس پھول کی مدحت میں وامِنقار ہے

سَرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ

Sarwar Kahoon Ke Maalik-o-Mola Kahoon Tujhe


نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری
کلام: امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی


سَرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے
باغِ خلیل کا گُلِ زیبا کہوں تجھے

حِرماں نصیب ہوں تجھے امّید گہ کہوں
جانِ مراد و کانِ تمنّا کہوں تجھے

صبحِ وطن پہ شامِ غریباں کو دوں شَرف
بیکس نواز گیسووں والا کہوں تجھے

اللہ رے تیرے جسمِ منور کی تابشیں
اے جانِ جاں میں جانِ تجلّا کہوں تجھے

مجرم ہوں اپنے عفو کا ساماں کروں، شہا!
یعنی شفیع روزِ جزا کا کہوں تجھے

اِس مُردہ دل کو مژدہ حیاتِ ابد کا دوں
تاب و توانِ جانِ مسیحا کہوں تجھے

تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بَری
حیراں ہوں، میرے شاہ! میں کیا کیا کہوں تجھے

کہہ لے گی سَب کچھ اُن کے ثنا خواں کی خامشی
چپ ہو رہا ہے کہہ کے میں کیا کیا کہوں تجھے

لیکن رضا نے ختمِ سخن اس پہ کر دیا
خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے

ایمان ہے قالِ مصطفائی

ایمان ہے قالِ مصطفائی
قرآن ہے حالِ مصطفائی

اللہ کی سلطنت کا دولہا
نقش تمثال مصطفائی

کُل سے بالا رسل سے اعلےٰ
اجلال و جلال مصطفائی

اصحاب نجومِ رہنما ہیں
کشتی ہے آل مصطفائی

ادبار سے تو مجھے بچالے
پیارے اقبال مصطفائی

مرسل مشتاقِ حق ہیں اور حق
مشتاق وصال مصطفائی

خواہانِ وصالِ کبریا ہیں
جویانِ جمال مصطفائی

محبوب و محب کی ملک ہے ایک
کونین ہیں مالِ مصطفائی

اللہ نہ چھوٹے دستِ دل سے
دامانِ خیال مصطفائی

ہیں تیرے سپرد سب امیدیں
اے جودو نوال مصطفائی

روشن کر قبر بیکسوں کی
اے شمع جمال مصطفائی

اندھیر ہے بے ترے مِرا گھر
اے شمع جمال مصطفائی

مجھ کو شب غم ڈرا رہی ہے
اے شمع جمال مصطفائی

آنکھوں میں چمک کے دل میں آجا
اے شمع جمال مصطفائی

میری شبِ تار دن بنادے
اے شمع جمال مصطفائی

چمکا دے نصیبِ بدنصیباں
اے شمع جمال مصطفائی

قزاق ہیں سر پہ راہ گم ہے
اے شمع جمال مصطفائی

چھایا آنکھوں تلے اندھیرا
اے شمع جمال مصطفائی

دل سرد ہے اپنی لو لگادے
اے شمع جمال مصطفائی

گھنگھور گھٹائیں غم کی چھائیں
اے شمع جمال مصطفائی

بھٹکا ہوں تو راستہ بتاجا
اے شمع جمال مصطفائی

فریاد دباتی ہے سیاہی
اے شمع جمال مصطفائی

میرے دِل مردہ کو جلادے
اے شمع جمال مصطفائی

آنکھیں تری راہ تک رہی ہیں
اے شمع جمال مصطفائی

دکھ میں ہیں اندھیری رات والے
اے شمع جمال مصطفائی

تاریک ہے رات غم زدوں کی
اے شمع جمال مصطفائی

ہو دونوں جہاں میں منھ اجالا
اے شمع جمال مصفائی

تاریکیِ گور سے بچانا
اے شمع جمال مصطفائی

پُر نور ہے تجھ سے بزمِ عالم
اے شمع جمال مصطفائی

ہم تیرہ دلوں پہ بھی کرم کر
اے شمع جمال مصطفائی

لِلّٰہ اِدھر بھی کوئی پھیرا
اے شمع جمال مصطفائی

تقدیر چمک اٹھے رضا کی
اے شمع جمال مصطفائی

ہے کلامِ الٰہی میں شمس و ضحےٰ

ہے کلامِ الٰہی میں شمس و ضحےٰ ترے چہرہٴ نور فزا کی قسم
قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا کہ حبیب کی زلفِ دوتا کی قسم

تِرے خُلق کو حق نے عظیم کہاتِری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالقِ حُسن و ادا کی قسم

وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم

ترا مسندِ ناز ہے عرشِ بریں تِرا محرم راز ہے رُوحِ امیں
تو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم

یہی عرض ہے خالقِ ارض و سما وہ رسول ہیں تیرے میں بندہ تیرا
مجھے ان کے جوار میں دے وہ جگہ کہ ہے خلد کو جس کی صفا کی قسم

تو ہی بندوں پہ کرتا ہے لطف و عطا ہے تجھی پہ بھروسا تجھی سے دُعا
مجھے جلوہٴ پاک رسول دکھا تجھے اپنے ہی عزّ و علا کی قسم

مرے گرچہ گناہ ہیں حد سے سوا مگر ان سے امید ہے تجھ سے رَجا
تو رحیم ہے ان کا کرم ہے گوا وہ کریم ہیں تیری عطا کی قسم

یہی کہتی ہے بلبلِ باغِ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحر بیاں
نہیں ہند میں واصفِ شاہِ ہُدیٰ مجھے شوخیِ طبعِ رضا کی قسم

تمہارے ذرّے کے پر تو ستار

Tumhare Zarre key par to

تمہارے ذرّے کے پر تو ستار ہائے فلک
تمہارے نعل کی ناقص مثل ضیائے فلک

اگرچہ چھالے ستاروں سے پڑگئے لاکھوں
مگر تمہاری طلب میں تھکے نہ پائے فلک

سرِ فلک نہ کبھی تابہ آستاں پہنچا
کہ ابتدائے بلندی تھی انتہائے فلک

یہ مٹ کے ان کی رَوِش پر ہوا خود اُن کی روِش
کہ نقشِ پاہے زمیں پر نہ صورتِ پائے فلک

تمہاری یاد میں گزری تھی جاگتے شب بھر
چلی نسیم ہوئے بند دید ہائے فلک

نہ جاگ اٹھیں کہیں اہلِ بقیع کچی نیند
چلا یہ نرم نہ نِکلی صَدائے پائے فلک

یہ اُن کے جلوہ نے کیں گر میاں شبِ اسرا
کہ جب سے چرخ میں ہیں نقرہ و طلائے فلک

مِرے غنی نے جواہر سے بھر دیا دامن
گیا جو کاسۂ مہ لے کے شب گدائے فلک

رہا جو قانعِ یک نانِ سوختہ دن بھر
ملی حضور سے کانِ گہر جزائے فلک

تجملِ شبِ اسرا ابھی سمٹ نہ چکا
کہ جب سے ویسی ہی کوتل ہیں سبز ہائے فلک

خطابِ حق بھی ہے دربابِ خلق مِنْ اَجَلِکْ
اگر ادھر سے دمِ حمد ہے صدائے فلک

یہ اہلِ بیت کی چکی سے چال سیکھی ہے
رواں ہے بے مددِ دست آسیائے فلک

رضا یہ نعتِ نبی نے بلندیاں بخشیں
لقب زمینِ فلک کا ہوا سمائے فلک

Thursday, August 6, 2009

در سے غلام آپ کے سر کو

Dar Se Gulam Aap Key Sar Ko Uthayen Kis Tarah
Part 1


Part 2


نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری

در سے غلام آپ کے سر کو اُٹھائیں کس طرح
چھوڑ کہ آپ کا دیار جائیں تو جائیں کس طرح

آنکھ کو گر منالیا دل کو منائیں کس طرح
فصل بہار لٹ چکی پھول کھلائیں کس طرح

چوم کے خاکِ طیبہ ہم بھول گئے تھے سارے غم
پھر سے غمِ حیات میں دل کو ہنسائیں کس طرح

چھوڑ فکر دنیا کی چل مدینے

Chor Fikr Dunya Ki Chal Madine Chalte Hain


نعت خواں: الحاج محمد اویس رضا قادری




نعت خواں: الحاج محمد یوسف میمن

چھوڑ فکر دنیا کی چل مدینے چلتے ہیں
مصطفےٰ غلاموں کی قسمتیں بدلتے ہیں

رحمتوں کی چادر کے سائے سائے چلتے ہیں
مصطفےٰ کے دیوانے گھر سے جب نکلتے ہیں

صرف ساری دنیا میں وہ ہے کوچۂ احمد
جس جگہ میں مجھ جیسے کھوٹے سکے چلتے ہیں

ہم کو روز ملتا ہے صدقہ کملی والے کا
مصطفےٰ کے ٹکڑوں پر خوش نصیب پلتے ہیں

Wednesday, August 5, 2009

مدینہ یاد آتا ہے

Madina Yaad Aata hai


نعت خواں: یعقوب ابراہیم نقشبندی



نعت خواں: الحاج محمد یوسف میمن

درِاقدس پہ حالِ دل سنانا یاد آتا ہے
مدینہ یاد آتا ہے مدینہ یاد آتا ہے
مدینہ میں جو گزرا وہ زمانہ یاد آتا ہے
مدینہ یاد آتا ہے مدینہ یاد آتا ہے

خدا کے نور کے جلوے جو دیکھے میں نے طیبہ میں
مجھے رہ رہ کے وہ منظر سہانا یاد آتا ہے
مدینہ یاد آتا ہے مدینہ یاد آتا ہے

ادب سے بیٹھ کر اُس گنبدِ خضریٰ کے سائے میں
نبی کی یاد میں آنسو بہانا یاد آتا ہے
مدینہ یاد آتا ہے مدینہ یاد آتا ہے

رسول الله کے دربار میں شوق و محبت سے
وہ میرا روز و شب کا آنا جانا یاد آتا ہے
مدینہ یاد آتا ہے مدینہ یادآتا ہے

مزارِ فاطمہ پر کربلا والوں کی یاد آئی
مدینے والے آقا کا گھرانا یاد آتا ہے
مدینہ یاد آتا ہے مدینہ یاد آتا ہے

ثنا مصطفیٰ کی جدھر ہو رہی ہے

ثنا مصطفیٰ کی جدھر ہو رہی ہے
وہیں رحمتوں کی نظر ہو رہی ہے

طفیلِ نبی جو بھی مانگی دعائیں
وہ ہر اِک دعا پر اثر ہو رہی ہے

مدینے جو پہنچوں تو آنکھوں سے دیکھوں
مدینے میں کیسی سحر ہو رہی ہے

نبی کی ہی نظریں عنایت بھلوں پر
بُروں پر بھی رحمت مگر ہو رہی ہے

در نبی پر یہ عمر بیتے

Dare Nabi Per Ye Umr Beete


نعت خواں: ڈاکٹر نثار احمد معرفانی
کلام: خالد محمود نقشبندی


یہ رفعتِ ذکرِ مصطفیٰ ہے نہیں کسی کا مقام ایسا
جو بات ذکرِ خدا ہے افضل ہے ذکرِ خیر الانعام ایسا

درِ نبی پر یہ عمر بیتے ہو ہم پہ لطفِ دوام ایسا
مدینے والے کہیں مقامی ہو اُن کے در پر قیام ایسا

مجھی کو دیکھو وہ بے طلب ہی نوازتے جا رہے ہیں پیہم
نہ میرا کوئی عمل ہے ایسا نہ میرا کوئی ہے کام ایسا

ہے جتنے عقل و خرد کے دعوے کب اُن کی گردِ سفر کو پہنچے
کوئی بھی اب تک سمجھ نہ پایا ہے مصطفیٰ کا مقام ایسا

نماز اقصیٰ میں جب پڑھائی تو انبیاء اور رسل یہ بولے
نماز ہو تو نماز ایسی امام ہو تو امام ایسا

بلال تجھ پر نثار جاؤں کہ خود نبی نے تجھے خریدا
نصیب ہو تو نصیب ایسا غلام ہو تو غلام ایسا

میرے سرکار آئے

بارہ ربیع الاول کے دن ابرِ بہارا چھائے
آمنہ تیرے گھر آکر جبریل پیام یہ لائے
میرے سرکار آئے

دور ہوا دنیا سے اندھیرا آئے آقا ہوا سویرا
عبد اللہ کے گھر آگن خوشیوں کے بادل چھائے
میرے سرکار آئے

سوکھی تھیں گلشن میں کلیاں سونی تھیں مکّے کی گلیاں
اُن کے قدم سے چاروں جانب ہوگئے نور کے سائے
میرے سرکار آئے

مشکل تیری ٹل جائے گی سوکھی کھیتی پھل جائے گی
دائی حلیمہ تیرے سوئے بھاگ جگانے آئے
میرے سرکار آئے

جو ہے سب نبیوں کے سرور جانِ مسیحا خزر کے رہبر
جھولی بھرنا کام ہے جن کا آج وہ داتا آئے
میرے سرکار آئے

مجھ کو نِدا آئی یہ محسن دنیا کو بتلا دے محسن
جو ہے نبی کا چاہنے والا اپنے گھر کو سجائے
میرے سرکار آئے

عرشِ حق ہے مسندِ رفعت

Arshe Haq Hai Masnade Rifat Rasolullah Ki


نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ


عرشِ حق ہے مسندِ رفعت رسول اللہ کی
دیکھنی ہے حشر میں عزّت رسول اللہ کی

قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نور کے
جلوہ فرما ہوگی جب طلعت رسول اللہ کی

کافروں پر تیغ والا سے گری برقِ غضب
اَبر آسا چھا گئی ہیبت رسول اللہ کی

لَا وَرَبِّ الْعَرْش جس کو جو ملا اُن سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نِعمت رسول اللہ کی

وہ جہنم میں گیا جو اُن سے مستغنی ہوا
ہے خلیل اللہ کو حاجت رسول اللہ کی

سورج اُلٹے پاوٴں پلٹے چاند اشارے سے ہو چاک
اندھے نجدی دیکھ لے قدرت رسول اللہ کی

تجھ سے اور جنّت سے کیا مطلب وہابی دور ہو
ہم رسول اللہ کے جنت رسول اللہ کی

ذکر رو کے فضل کاٹے نقص کا جویاں رہے
پھر کہے مردک کے ہوں امّت رسول اللہ کی

نجدی اُس نے تجھ کو مہلت دی کہ اِس عالم میں ہے
کافر و مرتد پہ بھی رحمت رسول اللہ کی

ہم بھکاری وہ کریم اُن کا خدا اُن سے فزوں
اور نا کہنا نہیں عادت رسول اللہ کی

اہلِ سنّت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور
نجم ہیں اور ناوٴ ہیں عِترت رسول اللہ کی

خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملا
جان کی اکسیر ہے الفت رسول اللہ کی

ٹوٹ جائیں گے گنہگاروں کے فوراً قید و بند
حشر کو کھل جائے گی طاقت رسول اللہ کی

یارب اِک ساعت میں دھل جائیں سیہ کاروں کے جرم
جوش میں آجائے اب رحمت رسول اللہ کی

ہے گل باغِ قُدس رخسار زیبائے حضور!
سروِ گلزارِ قِدم قامت رسول اللہ کی

اے رضا خود صاحبِ قرآں ہے مدّاح حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی

درِ رسول پہ جانے کی آرزو ہے

Dare Rasool Pe Jaane Ki Aarzoo Hai Mujhe


نعت خواں: ذوالفقار علی

درِ رسول پہ جانے کی آرزو ہے مجھے
وہیں پہ نعت سنانے کی آرزو مجھے

درِ رسول پہ جاؤں وہیں کا ہوجاؤں
غلام خود کو بنانے کی آرزو ہے مجھے

نبی کے در کو میں پلکوں سے اپنی صاف کروں
کہ آنکھیں در پہ بچھانیں کی آرزو ہے مجھے

درِ حضور کی قلبت نصیب ہوجائے
مقدر اپنا جگانے کی آرزو ہے مجھے

تمہیں بناؤ گے بگڑی سعید کی آقا
تمہارے در سے ہی پانے کی آرزو ہے مجھے

Tuesday, August 4, 2009

دل کو اُن سے خدا جدا نہ کرے

Dil ko un se khuda juda na kare


نعت خواں: الحاج فصیح الدین سہروردی
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی

دل کو اُن سے خدا جدا نہ کرے
بے کسی لوٹ لے خدا نہ کے

اس میں رَوضہ کا سجدہ ہو کہ طواف
ہوش میں جو نہ ہو وہ کیا نہ کرے

یہ وہی ہیں کہ بخش دیتے ہیں
کون ان جرموں پر سزانہ کرے

سب طبیبوں نے دے دیا ہے جواب
آہ عیسیٰ اگر دوا نہ کرے

دل کہاں لے چلا حرم سے مجھے
ٓارے تیرا بُرا خدا نہ کرے

عذر امید عفو گر نہ سنیں
روسیاہ اور کیا بہانہ کرے

دل میں روشن ہے شمعِ عشق حضور
کاش جوشِ ہوس ہوا نہ کرے

حشر میں ہم بھی سیر دیکھیں گے
منکر آج ان سے التجا نہ کرے

ضعف مانا مگر یہ ظالم دل
ان کے رستے میں تو تھکا نہ کرے

جب تری خو ہے سب کا جی رکھنا
وہی اچھا جو دل برا نہ کرے

دل سے اِک ذوق مے کا طالب ہوں
کون کہتا ہے اتقا نہ کرے

لے رضا سب چلے مدینے کو
میں نہ جاوٴں ارے خدا نہ کرے

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
مرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے

برستا نہیں دیکھ کر ابرِ رحمت
بدوں پر بھی برسادے برسانے والے

مدینہ کے خطّے خُدا تجھ کو رکھے
غریبوں فقیروں کے ٹھہرانے والے

تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

میں مجرم ہوں آقا مجھے ساتھ لے لو
کہ رستے میں ہیں جا بجا تھانے والے

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے

چل اٹھ جبہہ فر سَا ہو ساقی کے در پر
درِ جود اے میرے مستانے والے

تِرا کھائیں تیرے غلاموں سے الجھیں
ہیں منکر عجب کھانے غرّانے والے

رہے گا یوں ہی ان کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہوجائیں گے جل جانے والے

اب آئی شفاعت کی سَاعت اب آئی
ذرا چین لے میرے گھبرانے والے

رضا نفسِ دشمن سے دَم میں نہ آنا
کہاں تم نے دیکھے ہیں چند رانے والے

وہ کمَال حسنِ حضور ہے

وہ کمَال حسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کِس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں

بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

کرے مصطفےٰ کی اہانتیں کھلے بندوں اس پہ جرأتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں محمّدی! ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں

ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منھ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں
کوئی کہدو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں

ہے انھیں کے نور سے سب عیاں ہے انھیں کے جلوہ میں سب نہاں
بنے صبح تابش مہر سے رہے پیش مہر یہ جاں نہیں

وہی نورِ حق وہی ظلِّ رب ہے انھیں سے سب ہے انھیں کا سب
نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں

وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کوگل کہے کیا بنی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں

کروں مدح اہلِ دول رضا پڑے اِس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین پارۂ ناں نہیں

رحمت برس رہی ہے

رحمت برس رہی ہے محمد کے شہر میں
ہر شے میں تازگی ہے محمد کے شہر میں

دولت سکوں کی ہر جگہ ہم ڈھونڈتے رہے
آخر یہ مل گئی ہے محمد کے شہر میں

ایسا لگا کہ سامنے خود آگئے حضور
اِک نعت جب پڑھی ہے محمد کے شہر میں

آتے ہیں بخشوانے گناہوں کو گنہگار
قسمت بدل رہی ہے محمد کے شہر میں

روشن ہے جس کے نور سے دونوں جہاں ریاض
ایسی شمع جلی ہے محمد کے شہر میں

اُن کی مہک نے دل کے

Un Ki Mehak Ne Dil Key Gunche Khila Diye Hain

اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھِلا دیے ہیں
جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیے ہیں

جب آگئی ہیں جوشِ رحمت پہ اُن کی آنکھیں
جلتے بُجھادیے ہیں روتے ہنسا دیے ہیں

اِک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا
تم نے تو چلتے پھرتے مُردے جلا دیے ہیں

ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آگئے ہیں سب غم بھلا دیے ہیں

ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گے
اب تو غنی کے دَر پر بستر جما دیے ہیں

اسرا میں گزرے جس دم بیڑے پہ قدسیوں کے
ہونے لگی سلامی پرچم جھکا دیے ہیں

آنے دو یا ڈبو دو اب تو تمہاری جانب
کشتی تمہیں پہ چھوڑی لنگر اٹھادیے ہیں

دولھا سے اتنا کہ دو پیارے سواری روکو
مشکل میں ہیں براتی پر خار بادیے ہیں

اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سَرد ہوگا
رو رو کے مصطفےٰ نے دریا بہا دیے ہیں

میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دے ہیں دُر بے بہادیے ہیں

ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلّم
جس سمت آگئے ہو سِکّے بٹھا دیے ہیں

دلوں کے گلشن مہک رہے ہیں

دلوں کے گلشن مہک رہے ہیں یہ کیف کیوں آج آرہے ہیں
کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے حضور تشریف لا رہے ہیں

نہ پاس بھی ہو تو سونا ساون وہ جس پہ راضی وہی سہاگن
جنہوں نے پکڑا نبی کا دامن اُنہی کے گھر جگمگا رہے ہیں

کہیں پہ رونق ہے مہکشوں کی کہیں پہ محفل ہے دل جلوں کی
یہ کتنے خوش بخت ہیں جو اپنے نبی کی محفل سجا رہے ہیں

نوازشوں پر نوازشیں ہیں عنایتوں پر عنایتیں ہیں
نبی کی نعتیں سنا سنا کر ہم اپنی قسمت جگا رہے ہیں

بنے کا جانے کا پھر بہانہ کہے گا آکر کوئی دیوانہ
چلو نیازی تمہیں مدینے مدینے والے بلا رہے ہیں

بندہ ملنے کو قریب حضرت قادرر

بندہ ملنے کو قریب حضرت قادر گیا
لمعۂ باطن میں گمنے جلوۂ ظاہر گیا

تیری مرضی پاگیا سورج پھرا اُلٹے قدم
تیری اُنگلی اُٹھ گئی مہ کا کلیجہ چر گیا

بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا
کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا

تیری رحمت سے صفی اللہ کا بیڑا پار تھا
تیرے صدقے سے نجی اللہ کا بجرا تِر گیا

تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھر تھرا کر گر گیا

مومن اُن کا کیا ہوا اللہ اس کا ہوگیا
کافر اُن سے کیا پھرا اللہ ہی سے پھر گیا

وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی
وہ کہ اُس در سے پھرا اللہ اس سے پھر گیا

مجھ کو دیوانہ بتاتے ہو میں وہ ہشیار ہوں
پاؤں جب طوفِ حرم میں تھک گئے سر پھر گیا

رحمۃ للعالمین آفت میں ہوں کیسی کروں
میرے مولیٰ میں تو اس دل سے بلا میں گھر گیا

میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ
جن سے اتنے کافروں کا دفعتاً منھ پھر گیا

کیوں جنابِ بوہریرہ تھا وہ کیسا جامِ شیر
جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منھ پھر گیا

واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سنی مرے
یوں نہ فرمائیں ترے شاہد کہ وہ فاجر گیا

عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن صالح ملا
فرش سے ماتم اٹھے وہ طیب و طاہر گیا

اللہ اللہ یہ علوِ خاص عبدیت رضا
بندہ ملنے کو قریب حضرت قادر گیا

ٹھوکریں کھاتے پھرو گےان کے در پر پڑ رہو
قافلہ تو اے رضا اول گیا آخر گیا

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اےبہار پھرتے ہیں

جو تِرے در سے یار پھرتے ہیں
در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں

ہر چرغِ مزار پر قدسی
کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں

لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پر
لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں

پھول کیا دیکھو میری آنکھوں میں
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں

ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں
پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں

اُس گلی کا گدا ہوں میں جس میں
مانگتے تاجدار پھرتے ہیں

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتنے ہزار پھرتے ہیں