Tuesday, August 11, 2009

لب پر نعتِ پاک کا نغمہ

Lub par naat-e-paak ka naghma


نعت خواں: قاری وحید ظفر قاسمی
کلام: صبیح رحمانی


لب پر نعتِ پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
میرے نبی سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

فکر نہیں ہے ہم کو کچھ بھی دُکھ کی دھوپ کڑی تو کیا
ہم پر اُن کے فضل کا سایہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

بتلا دو گستاخِ نبی کو غیرتِ مسلم زندہ ہے
دین پہ مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

اور کسی جانب کیوں جائیں اور کسی کو کیوں دیکھیں
اپنا سب کچھ گنبد خضریٰ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

پست وہ کیسے ہوسکتا ہے جس کو حق نے بلند کیا
دونوں جہاں میں اُن کا چرچا کل بھی تھا اور آج بھی ہے

جن آنکھوں سے طیبہ دیکھا وہ آنکھیں بے تاب ہیں پھر
ان آنکھوں میں ایک تقاضا کل بھی تھا اور آج بھی ہے

اُن کے در سے سب ہو آئے جا نہ سکا تو ایک صبیح
یہ ہے اک تصویر تمنا کل بھی تھا اور آج بھی ہے

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔