Thursday, August 13, 2009

سوزِ دل چاہیے چشمِ نم چاہیے

سوزِ دل چاہیے چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے
ہومیسر مدینے کی گلیاں اگر آنکھ کافی نہیں ہے نظر چاہیے

اُن کی محفل کے آداب کچھ اور ہیں لب کشائی کی جراٴت مناسب نہیں
اُن کے سرکار میں التجا کی لیے جنبش لب نہیں چشمِ تر چاہیے

رونقیں زندگی کی بہت دیکھ لیں اب میں آنکھوں کا اپنی کروں کا بھی کیا
اب نہ کچھ گفتنی ہے نہ کچھ دیدنی مجھ کو آقا کی بس اِک نظر چاہیے

میں گدائے درِ شان کونین ہوں شیش محلوں کی مجھ کو تمنا نہیں
ہو میسر زمیں پر کہ زیرِ زمیں مجھ کو طیبہ میں اِک اپنا گھر چاہیے

گوشہ گوشہ مدینے کا پُر نور ہے سارا ماحول جلووں سے معمور ہے
شرط یہ ہے کہ ظرفِ نظر چاہیے دیکھنے کے لیے دید ور چاہیے

مدحتِ سرورِ دوجہاں کے لیے صرف لفظ و وِلا کا سہارا نہ لو
فنِّ شعری ہے اقبال اپنی جگہ نعت کہنے کو خون و جگر چاہیے

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔