Monday, April 8, 2013

حُدود تیر سدرا حضور جانتے ہیں


حُدود تیر سدرا حضور جانتے ہیں
کہاں ہے عرشِ معلیٰ حضور جانتے ہیں

پہنچ کے سدرہ پہ روح الامین یہ بولے
کہ اس سے آگے کا رستہ حضور جانتے ہیں

بروز حشر شفاعت کریں گے چن چن کر
ہر اک غلام کا چہرہ حضور جانتے ہیں

بروز حشر شفاعت کریں گے آپ لیکن
اگر ہوا یہ عقیدہ حضور جانتے ہیں

بلا بھی سکتے ہیں آپ اور آ بھی سکتے ہیں
کہ دوریوں کو مٹانا حضور جانتے ہیں

اُنہیں خبر ہے کہیں سے پڑھو درود اُن پر
تمام دہر کا نقشہ حضور جانتے ہیں

میں اس یقین سے نکلا ہوں جانبِ طیبہ
میرے سفر کا ارادہ حضور جانتے ہیں

قیامت آئے گی کب اُن کو علم ہے سرور
ظہورِ کن کا بھی لمحہ حضور جانتے ہیں

جو ہوچکا ہے جو ہوگا حضور جانتے ہیں

جو ہوچکا ہے جو ہوگا حضور جانتے ہیں
تیری عطا سے خدایا حضور جانتے ہیں

وہ مومنوں کی تو جانوں سے بھی قریب ہوئے
کہاں سے کس نے پکارا حضور جانتے ہیں

ملے تھے راہ میں نو بار کس لیے موسیٰ
یہ دید حق کا بہانہ حضور جانتے ہیں

میں چپ کھڑا ہوں مواجہ پہ سر جھکائے ہوئے
سناؤں کیسے فسانہ حضور جانتے ہیں

چھپا رہے ہیں لگاتار میرے عیبوں کو
میں کس قدر ہوں کمینہ حضور جانتے ہیں

ہرن نے اونٹ نے چڑیوں نے کی یہی فریاد
کہ اُن کے غم کا مداوا حضور جانتے ہیں

ہرن یہ کہنے لگی چھوڑ دے مجھے سید
میں لوٹ آؤں گی واللہ حضور جانتے ہیں

بلا رہے ہیں نبی جا کے اتنا بول اسے
درخت کیسے چلے گا حضور جانتے ہیں

میں اُن کی بات کروں یہ نہیں میری اوقات
کہ شانِ فاطمہ زہرا حضور جانتے ہیں

کہاں مریں گے ابوجہل و عتبہ و شیبہ
کہ جنگ بدر کا نقشہ حضور جانتے ہیں

نہیں ہے زادِ سفر پاس جن غلاموں کے
اُنہیں بھی در پہ بلانا حضور جانتے ہیں

خدا ہی جانے عبید اُن کو ہے پتا کیا کیا
ہمیں پتا ہے بس اتنا حضور جانتے ہیں

کچھ ایسا کردے میرے کردگار آنکھوں میں


کچھ ایسا کردے میرے کردگار آنکھوں میں
کہ جلوہ گر رہے رُخ کی بہار آنکھوں میں

وہ نور دے میرے پروردگار آنکھوں
کہ جلوہ گر رہے رُخ کی بہار آنکھوں میں

بسر کے ساتھ بصیرت بھی خوب روشن ہو
لگاؤں خاکِ قدم بار بار آنکھوں میں

نظرمیں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کہ خار آنکھوں میں

اُنہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں
کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں

یہ دل تڑپ کے کہیں آنکھوں میں نہ آجائے
کہ پھر رہا ہے کسی کا مزار آنکھوں میں

عجب نہیں کہ لکھا لَوح کا نظر آئے
جو نقشِ پا کا لگاؤں غبار آنکھوں میں

فرشتوں پوچھتے ہو مجھ سے کس کی امت ہو
لو دیکھ لو یہ ہے تصویرِ یار آنکھوں میں

کرم یہ مجھ پہ کیا ہے میرے تصور نے 
کہ آج کھینچ دی تصویرِ یار آنکھوں میں

پیا ہے جامِ محبت جو آپ نے نوری
ہمیشہ اس کا رہے گا خمار آنکھوں میں

واہ کیا لطف اٹھاتی ہیں نبی کی آنکھیں


واہ کیا لطف اٹھاتی ہیں نبی کی آنکھیں
رب کے دیدار کو پاتی ہیں نبی کی آنکھیں

دیکھ لے جس کو قسمت کا دھنی ہوجائے
بگڑی تقدیر بناتی ہیں نبی کی آنکھیں

فرش سے عرش تلک دم میں پہنچ جاتی ہیں
جب بھی نظروں کو اُٹھاتی ہیں نبی کی آنکھیں

جاگتی رہتی ہیں شب بھر وہ غمِ اُمت میں
غم سے اُمت کو بچاتی ہیں نبی کی آنکھیں

ہم گنہگاروں کے اعمال کو دھونے کے لیے
رات بھر اشک بہاتی ہیں نبی کی آنکھیں

آج موضوعِ سخن خوب مسافر نے چُنا
میرا عنوان سجاتی ہیں نبی کی آنکھیں

Friday, April 5, 2013

معجزہ میرے نبی کا کہہ دیا تو ہوگیا


معجزہ میرے نبی کا کہہ دیا تو ہوگیا
آپ نے قطرہ کو دریا کہہ دیا تو ہوگیا

ہاتھ میں تلوار لے کر آئے جب حضرت عمر
آ میرے دامن میں آجا کہہ دیا تو ہوگیا

سامنے جابر کے فرزندوں کی لاشیں دیکھ کر
حکم رب سے زندہ ہوجا کہہ دیا تو ہوگیا

آبدیدہ تھے بوقتِ عصر جب حضرت علی
ڈوبے سورج کو نکل جا کہہ دیا تو ہوگیا

مسجد نبوی میں گھر سے آپ کے ممبر تلک
آپ  نے جنت کا ٹکڑا کہہ دیا تو ہوگیا

مصطفیٰ سے ہے خدا کو پیار کتنا دیکھیے
خانۂ کعبہ کو قبلہ کہہ دیا تو ہوگیا

بدر کے میدان میں کفار کی جائے ممات
جس جگہ تھا جس کو مرنا کہہ دیا تو ہوگیا

بلیوں پہ اُن کی شفقت اور محبت دیکھ کر
مصطفیٰ نے بوہریرہ کہہ دیا تو ہوگیا

نام لے کر مصطفیٰ کا ہاتھ میں لے کر قلم
میں نے اجمل اِک قصیدہ کہہ دیا تو ہوگیا