Thursday, July 30, 2009

شامل ہے خُدا جس مدحت میں

shaamil hai khuda jis midhat main


نعت خواں: فرحان علی قادری
کلام: اعجاز احمد رحمانی

شامل ہے خُدا جس مدحت میں وہ مدحت تو سرکار کی ہے
قربان ہے جس پہ دونوں جہاں وہ عظمت تو سرکار کی ہے

یہ دین اور دنیا کے ناطے سرکار نہیں تو کچھ بھی نہیں
جو کام ہمارے آئے گی وہ نسبت تو سرکار کی ہے

مختار ہیں وہ مجبور ہیں ہم وہ سب کچھ ہیں ہم کچھ بھی نہیں
ایمان جسے ہم کہتے ہیں وہ اُلفت تو سرکار کی ہے

سیچا ہے لہو سے آقا نے سر سبز شجر اسلام کا ہے
پھل جس کا یہ دنیا کھاتی ہے وہ محنت تو سرکار کی ہے

میں نعت نبی کی لکھتا ہوں کیوں روکے ہے اعجاز مجھے
معلوم نہیں کیا رضواں کو یہ جنت تو سرکار کی ہے

قربان میں اُن کی بخشش کے

قربان میں اُن کی بخشش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں
بن مانگے دیا اور اتنا دیا دامن میں ہمارے سمایا نہیں

ایمان ملا اُن کے صدقے قرآن ملا اُن کے صدقے
رحمٰن ملا اُن کے صدقے وہ کیا ہے جو ہم نے پایا نہیں

اُن کا تو شعار کریمی ہے مائل بہ کرم ہی رہتے ہیں
جب یاد کیا اے صل علی وہ آ ہی گئے تڑپایا نہیں

جو دشمن جاں تھے ان کو بھی دی تم نے اماں اپنوں کی طرح!
یہ عفو و کرم اللہ اللہ یہ خُلق کسی نے پایا نہیں

وہ رحمت کیسی رحمت ہے مفہوم سمجھ لو رحمت کا
اُس کو بھی گلے سے لگایا ہے جسے اپنا کسی نے بنایا نہیں

مونس ہیں وہی معزوروں کے غمخوار ہیں سب مجبوروں کے
سرکارِ مدینہ نے تنہا کس کس کا بوجھ اُٹھایا نہیں

دل بھر گئے منگتوں کے لیکن دینے سے تری نیت نہ بھری
جو آیا اسے بھر بھر کے دیا محروم کبھی لوٹایا نہیں

آواز کرم دیتا ہی رہا تھک ہار گئے لینے والے!
منگتوں کی ہمیشہ لاج رکھی محروم کبھی لوٹایا نہیں

رحمت کا بھرم بھی تم سے ہے شفقت کا بھرم بھی تم سے ہے
ٹھکرائے ہوئے انسان کو بھی تم نے تو کبھی ٹکھرایا نہیں

خورشید قیامت کی تابش مانا کہ قیامت ہی ہوگی
ہم اُن کے ہیں گھبرائیں کیوں کیا ہم پہ نبی کا سایہ نہیں

اُس محسنِ اعظم کے یوں تو خالد پہ ہزاروں احساں ہیں
قربان مگر اُس احساں کے احساں بھی کیا تو جتایا نہیں

یہ ناز یہ انداز ہمارے نہیں ہوتے

یہ ناز یہ انداز ہمارے نہیں ہوتے
جھولی میں اگر ٹکڑے تمہارے نہیں ہوتے

ملتی نہ اگر بھیک حضور آپ کے در سے
اس ٹھاٹ سے منگتوں کے گزارے نہیں ہوتے

بے دام ہی بِک جائیے بازار نبی میں
اِس شان کے سودے میں خسارے نہیں ہوتے

جب تک کہ مدینے سے اشارے نہیں ہوتے
روشن کبھی قسمت کے ستارے نہیں ہوتے

وہ چاہیں بلالیں جسے یہ اُن کا کرم ہے
بے اذن مدینے کے نظارے نہیں ہوتے

ہم جیسے نکموں کو گلے کون لگایا
سرکار اگر آپ ہمارے نہیں ہوتے

خالد یہ تصدق ہے فقط نعت کا ورنہ
محشر میں تیرے وارے نیارے نہیں ہوتے

خاک سورج سے اندھیروں کا

خاک سورج سے اندھیروں کا ازالہ ہوگا
آپ آئیں تو میرے گھر میں اُجالا ہوگا

عشقِ سرکار کی اِک شمع جلالو دل میں
بعد مرنے کے لحد میں اُجالا ہوگا

حشر میں اُن کا ہر اِک چاہنے والا ہوگا
میرے سرکار کا عالم ہی نرالا ہوگا

حشر میں ہوگا وہ سرکار کے جھنڈے کے تلے
میرے سرکار کا جو چاہنے والا ہوگا

آنہیں سکتا نظر جلوہٴ سرکار کبھی
بے یقینی کا اگر آنکھ میں جالا ہوگا

کل وہ سرکار کے دامن میں نظر آئے گا
جس کے عیبوں کو زمانے نے اُچھالا ہوگا

حشر میں اُس کو بھی سینے سے لگائیں گے حضور
جس گنہگار کو ہر ایک نے ٹالا ہوگا

جب بھی مانگو تو وسیلے سے اُنہیں کے مانگو
اِس وسیلے سے کرم اور دوبالا ہوگا

سر جھکائے گا وہ سرکار کے قدموں میں ضرور
جس کا مقصود بھی اللہ تعالیٰ ہوگا

ہوگا سیراب سرِ کوثر و تسنیم وہی
جس کے ہاتھوں میں مدینے کا پیالا ہوگا

ہر ضرورت پہ کفالت کی نظر ہے تیری
اور تجھ سا نہ کوئی پالنے والا ہوگا

ماہِ طیبہ کی تجلی بھی نرالی ہوگی
آپ کے گرد بھی اصحاب کا ہالا ہوگا

صلۂ نعتِ نبی پائے گا جس دن خالد
وہ کرم دیکھنا تم دیکھنے والا ہوگا

نہیں در بدر بھٹکتے تِرے در کا

نہیں در بدر بھٹکتے تِرے در کا کھانے والے
رہیں سُر خرو ہمیشہ تِرے گیت گانے والے

میں بُرا بہت بُرا ہوں مگر تیرا اُمّتی ہوں
تو مجھے بھی اِک نبھا لے سب کو نبھا نے والے

میں خطا کی زمیں ہوں تو عطا کا آسماں ہے
میری آس بھی پندھا دے سب کی پندھانے والے

اے قضا ابھی نہ آنا مجھے جانا ہے مدینہ
میرے آقا در پہ اپنے مجھے ہیں بلانے والے

میرے بس میں کچھ نہیں ہے تیرے بس میں کُل جہاں ہے
میرا درد بھی بٹادے سب کا بٹانے والے

ہے یہی اُمید عشرت ملے رنگِ اعلیٰ حضرت
رہیں شاد تیری نعتیں سننے سنانے والے

اپنا ہستی پر اجارا کچھ نہیں

اپنا ہستی پر اجارا کچھ نہیں
سب انہیں کا ہے ہمارا کچھ نہیں

بیچتے خود کو نبی کے نام پر
ایسے سودے میں خسارا کچھ نہیں

ان کی نسبت سے نہیں ملتے اگر
رشتہ آپس میں ہمارا کچھ نہیں

اُن پہ جو وارا انہیں کی دین تھی
میں پشیماں ہوں کہ وارا کچھ نہیں

روسیا ہی کا بھرم رکھنا حضور
ہم نکموں نے سنوارا کچھ نہیں

زمیں میلی نہیں ہوتی زمن میلا

زمیں میلی نہیں ہوتی زمن میلا نہیں ہوتا
محمد کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا

محبت کملی والے سے وہ جذبہ ہے سنو لوگوں
وہ جس من میں سماجائے وہ من میلا نہیں ہوتا

گلوں کو چوم لیتے ہیں سحر نم شب نمی قطرے
نبی کی نعت سُن لیں تو چمن میلا نہیں ہوتا

جو نامِ مصطفی چومیں نہیں دکھتی کبھی آنکھیں
پہن لے پیار جو اُن کا بدن میلا نہیں ہوتا

نبی کا دامنِ رحمت پکڑلو اے جہاں والو
رہے جب تک یہ ہاتھوں میں چلن میلا نہیں ہوتا

میں نازاں تو نہیں فن پر مگر ناصر یہ دعویٰ ہے
ثنائے مصطفی کرنے سے فن میلا نہیں ہوتا

ٹھہری ہوئی آنکھوں میں

ٹھہری ہوئی آنکھوں میں جدائی کی گھڑی ہے
شب آخری طیبہ کی میرے سر پہ کھڑی ہے

کیا عرض و تمنّا ہے کہ ملتے نہیں الفاظ
دنیائے تمنّا ہے جو ہونٹوں پہ اڑی ہے

روتے ہوئے سامانِ سفر باندھ رہے ہیں
محسوس یہ ہوتا ہے قیامت کی گھڑی ہے

کھنچتے چلے جاتے ہیں قدم سوئے حرم پھر
یہ شہرِ مدینہ سے نکلنے کی گھڑی ہے

لوٹا ہے مدینے سے ریاض اپنا بدن ہی
جو روح ہے وہ اب بھی مواجہ پہ کھڑی ہے

اپنا ہستی پر اجارا کچھ نہیں

اپنا ہستی پر اجارا کچھ نہیں
سب انہیں کا ہے ہمارا کچھ نہیں

بیچتے خود کو نبی کے نام پر
ایسے سودے میں خسارا کچھ نہیں

ان کی نسبت سے نہیں ملتے اگر
رشتہ آپس میں ہمارا کچھ نہیں

اُن پہ جو وارا انہیں کی دین تھی
میں پشیما ہوں کہ وارا کچھ نہیں

روسیاں ہی کا بھرم رکھنا حضور
ہم نکموں نے سوارا کچھ نہیں

میرے آقا نگاہِ کرم ہو

بھیک عطا ئے نبی محتشم ہو میرے آقا نگاہِ کرم ہو

دید کا ہوں طلب گار آقا ہوں اگرچہ گنہگار آقا
اِک جھلک اپنی سرکار آقا اب دکھادو نا اِک بار آقا

اس گنہگار پر بھی کرم ہو میرے آقا نگاہِ کرم ہو

چھوٹ جائے گناہوں کی عادت رب کی دل سے کروں میں عبادت
ایسی کردے تو نظرِ عنایت بس تیرے غم میں ماہِ رسالت

دِل تڑپتا رہے آنکھ نم ہو میرے آقا نگاہِ کرم ہو

ہے تمنا میری میرے دلبردیکھ لوں کاش ہر سال آکر
تیری مسجد کے محراب و منبراور روزے کا پر کیف منظر

پھر بیاں حال با چشمِ نم ہو میرے آقا نگاہِ کرم ہو

یاد آتا ہے مجھ کو وہ منظرجب چلا تھا مدینے سے دلبر
مضطرب قلب تھا آنکھ تھی تراُس گھڑی عرض یہ تھی زباں پر

کہ بار بار آوٴں ایسا کرم ہومیرے آقا نگاہِ کرم ہو

عرض کرتا عبیدِ رضا ہے جو تِرے گھر کا ادنیٰ گدا ہے
مشکلوں میں شہا یہ گھرا ہے تجھ سے امداد یہ چاہتا ہے

دور اس کا ہر اِک رنج و غم ہومیرے آقا نگاہِ کرم ہو

میرے سرکار کے گیسو

میرے رب کو بھی ہیں پیارے میرے سرکار کے گیسو
عروجِ حسن سے آگے میرے سرکار کے گیسو

گھماتی اُمِّ سلمیٰ پانی میں موئے مبارک کو
مریضوں کو شفا دیتے میرے سرکار کے گیسو

منیٰ میں بال کٹوا کر دیا جب حکم آقا نے
ابو طلحہ نے پھر بانٹے میرے سرکار کے گیسو

میرے آقا نے سجدوں میں زمیں کو بھی نوازا تھا
زمیں نے بارہا چومیں میرے سرکار کے گیسو

نکل آتی بنا کنگی کیے اِک مانگ ذلفوں میں
کچھ ایسے بیچ سے ہٹتے میرے سرکار کے گیسو

زیارت گیسووٴں کی ہے نبی کی دید کا حصہ
وہ ہے خوش بخت جو دیکھے میرے سرکار کے گیسو

فقط اس واسطے خالد میں ہر اِک معارکہ جیتا
اُنھوں نے ٹوپی میں رکھے میرے سرکار کے گیسو

جہاں روضہٴ پاک خیر الوریٰ ہے

جہاں روضہٴ پاک خیر الوریٰ ہے وہ جنت نہیں ہے تو پھر اور کیاہے
کہاں میں کہاں یہ مدینے کی گلیاں یہ قسمت نہیں ہے توپھر اور کیا ہے

محمد کی عظمت کو کیا پوچھتے ہو کہ وہ صاحبِ قابہ قوسین ٹھہرے
بشر کی سرِ عرش مہماں نوازی یہ عظمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

جو عاصی کو دامن میں اپنی چھپالے جو دشمن کو بھی زخم کھا کر دعا دیں
اُسے اور کیا نام دے گا زمانہ وہ رحمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

قیامت کا اِک دن معین ہے لیکن ہماری لیے ہر نفس ہے قیامت
مدینے سے ہم جانثاروں کی دوری قیامت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

تم اقبال یہ نعت کہ تو رہے ہو مگر یہ بھی سوچا کہ کیا کر رہے ہو
کہاں تم کہاں مدحِ ممدوحِ یزداں یہ جراٴت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

ہے چمن ہی چمن مدینے میں

ہے چمن ہی چمن مدینے میں
اُن کی دیکھو پھبن مدینے میں

ساری دُنیا ہے ہر انجمن اُن کی
زینتِ انجمن مدینے میں

آرزو ہے یہ دل میں بن جائے
کاش میرا وطن مدینے میں

ہے سخن ور جہاں میں لاکھوں ہی
آج دارِ سُخن مدینے میں

جدِّ سادات اے ریاضِ حزیں
ہے حسین و حسن مدینے میں

Wednesday, July 29, 2009

یا الٰہی ہر جگہ تیری عطا کا

Ya Ilahi Har Jaga Teri Ata Ka Saath Ho


نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی

یا الٰہی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل شہِ مشکل کشا کاساتھ ہو

یا الٰہی بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو
شادیِ دیدارِ حسنِ مصطفٰے کا ساتھ ہو

یا الٰہی گور تیرہ کی جب آئے سخت رات
اُن کے پیارے منھ کی صبحِ جانفزا کا ساتھ ہو

یا الٰہی جب پڑے محشر میں شورِ دار و گیر
امن دینے والے پیارے پیشوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی جب زبانیں باہر آئیں پیاس سے
صاحبِ کوثرشہِ جود و عطا کا ساتھ ہو

یا الٰہی سرد مہری پر ہو جب خورشیدِ حشر
سیّدِ بے سایہ کے ظلّ لِوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی گرمیِ محشر سے جب بھڑکیں بدن
دامنِ محبوب کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی نامۂ اعمال جب کھلنے لگیں
عیب پوشِ خلق ستا رِ خطا کا ساتھ ہو

یا الٰہی جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں
ان تبسم ریز ہونٹوں کی دُعا کا ساتھ ہو

یاالٰہی جب حسابِ خندہ بیجا رلائے
چشمِ گریانِ شفیعِ مُر تجٰے کا ساتھ ہو

یا الٰہی رنگ لائیں جب مری بے باکیاں
اُن کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو

یا الٰہی جب چلوں تاریک راہ پل صراط
آفتابِ ہاشمی نور الہُدی کا ساتھ ہو

یا الٰہی جب سرِ شمشیر پر چلنا پڑے
رَبِّ سَلِّم کہنے والے غمزدا کا ساتھ ہو

یا الٰہی جو دُعائے نیک میں تجھ سے کروں
قدسیوں کے لب سے آمیں رَبَّنَا کا ساتھ ہو

یا الٰہی جب رضا خوابِ گراں سے سر اٹھائے
دولتِ بیدار عشقِ مصطفےٰ کا ساتھ ہو

Monday, July 27, 2009

تجھے حمد ہے خدایا

Wohi Rab Hai Jis Ne Tujh Ko




نعت خواں: الحاج محمد اُویس رضا قادری
کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ


وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا
تجھے حمد ہے خدایا

تمہیں حاکم برایا تمہیں قاسم عطایا
تمہیں دافع بلایا تمہیں شافع خطایا
کوئی تم سا کون آیا

وہ کواری پاک مریم وہ نفخت فیہ کا دم
ہے عجب نشان نشان اعظم مگر آمنہ کا جایا
وہی سب سے افضل آیا

یہی بولے سدرہ والے چمن جہاں کے تھالے
سبھی میں چہان ڈالے تیرے پایہ کا نہ پایا
تجھے یک نے یک بنایا

فاذا فرغب فنصب یہ ملا ہے تجھ کو منصب
جو گدا بنا چکے اب اٹھو وقت بخشش آیا
کرو قسمت عطایا

والی الا لہ فارغب کرو عرض سب کے مطلب
کہ تمہیں کو تکتے ہیں سب کرو ان پہ اپنا سایا
بنو شافع خطایا

ارے اے خدا کے بندوں کوئی میرے دل کو ڈھونڈو
مرے پاس تھا ابھی تو ابھی کیا ہوا خدایا
نہ کوئی گیا نہ آیا

ہمیں اے رضا تیرے دل کا پتا چلا بمشکل
در روضہ کے مقابل وہ ہمیں نظر تو آیا
یہ نہ پوچھ کیسا پایا

کبھی خندہ زیر لب ہے کبھی گریہ ساری شب ہے
کبھی غم کبھی طرب ہے نہ سبب سمجھ میں آیا
نہ اسی نے کچھ بتایا

کبھی خاک پر پڑا ہے سر چرخ زپر پا ہے
کبھی پیش در کھڑا ہے سر بندگی جھکایا
تو قدم میں عرش پایا

کبھی وہ تپک کہ آتش کبھی وہ ٹپک کہ بارش
کبھی وہ ہجوم نالش کوئی جانے ابر چھایا
بڑی جوششوں سے آیا

کبھی وہ چہک کہ بلبل کبھی وہ مہک کہ خود گل
کبھی وہ لہک کہ بالکل چمن جناں کھلایا
گل قدس لہلہایا

کبھی زندگی کے ارماں کبھی مرگ نو کا خواہاں
وہ حیا کہ مرگ قرباں وہ موا کہ زیست لایا
کہے روح ہاں جلایا

کبھی گم کبھی عیاں ہے کبھی سرد گہ تپاں ہے
کبھی زیر لب فغاں ہے کبھی چپ کہ دم نہ تھایا
رخ کام جاں دکھایا

یہ تصورات باطل ترے آگے کیا ہیں مشکل
تری قدرتیں ہیں کامل انہیں راست کر خدایا
میں انہیں شفیع لایا