Thursday, July 30, 2009

ٹھہری ہوئی آنکھوں میں

ٹھہری ہوئی آنکھوں میں جدائی کی گھڑی ہے
شب آخری طیبہ کی میرے سر پہ کھڑی ہے

کیا عرض و تمنّا ہے کہ ملتے نہیں الفاظ
دنیائے تمنّا ہے جو ہونٹوں پہ اڑی ہے

روتے ہوئے سامانِ سفر باندھ رہے ہیں
محسوس یہ ہوتا ہے قیامت کی گھڑی ہے

کھنچتے چلے جاتے ہیں قدم سوئے حرم پھر
یہ شہرِ مدینہ سے نکلنے کی گھڑی ہے

لوٹا ہے مدینے سے ریاض اپنا بدن ہی
جو روح ہے وہ اب بھی مواجہ پہ کھڑی ہے

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔