وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اےبہار پھرتے ہیں
جو تِرے در سے یار پھرتے ہیں
در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں
ہر چرغِ مزار پر قدسی
کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں
لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پر
لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں
پھول کیا دیکھو میری آنکھوں میں
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں
ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں
پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں
اُس گلی کا گدا ہوں میں جس میں
مانگتے تاجدار پھرتے ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتنے ہزار پھرتے ہیں
Tuesday, August 4, 2009
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔