Saturday, October 10, 2009

نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان

Nematen Baantta Jis Simt Wo Zishan Gaya


نعت خواں: الحاج فصیح الدین سہروردی
کلام: امام اہلِ سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی


نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلم دان گیا

لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ مِرے آقا ترے قربان گیا

آہ وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنّا ہی رہی
ہائے وہ دل جو ترے در سے پُر اَرمان گیا

دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر وہ سر ہے جو ترے قدموں پہ قربان گیا

انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
لِلّٰہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا

آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

اُف رے منکر یہ بڑھا جوشِ تعصّب آخر
بھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا

جان و دل ہوش و خِرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا

Friday, October 9, 2009

وہ جو چاہیں چاند کو توڑ دیں

صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

وہ جو چاہیں چاند کو توڑ دیں
اُنہیں اختیار دیا گیا
وہ پھر اُس کے ٹکڑوں کو جوڑ دیں
اُنہیں اختیار دیا گیا

صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

جو علی کی عصر قضا ہوئی
تو وہ وقت پر ہی ادا ہوئی
چھپے آفتاب کو موڑ دیں
اُنہیں اختیار دیا گیا

کسی اُمتی کو سقر کی رخ
لیے جا رہے ہیں ملائکہ
تو پکڑ کے خلد کو موڑ دیں
اُنہیں اختیار دیا گیا

صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

لکھوں نازش اُن کا یہ معجزہ
کہ کسی کی آنکھ نکل گئی
تو لعاب پاک سے جوڑ دیں
اُنہیں اختیار دیا گیا

صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Wednesday, September 9, 2009

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی
سب سے بالا و والا ہمارا نبی

اپنے مولیٰ کا پیا را ہمارا نبی
دونوں عالم کا دولھا ہمارا نبی

بزمِ آخر کا شمع فروزاں ہوا
نور اوّل کا جلوہ ہمارا نبی

جس کو شایاں ہے عرش خُدا پر جلوس
ہے وہ سلطانِ والا ہمارا نبی

بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں
شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبی

جس کے تلووں کا دھوون ہے آبِ حیات
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی

عرش و کرسی کی تھیں آئینہ بندیاں
سوئے حق جب سدھارا ہمارا نبی

خلق سے اولیا اولیا سے رسل
اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی

حسن کھاتا ہے جس کے نمک کی قسم
وہ ملیحِ دِل آرا ہمارا نبی

ذکر سب پھیکے جب تک نہ مذکور ہو
نمکیں حسن والا ہمارا نبی

جس کی دو بوند ہیں کوثر و سلسبیل
ہے وہ رحمت کا دریا ہمارا نبی

جیسے سب کا خدا ایک ہے ویسے ہی
اِن کا اُن کا تمہارا ہمارا نبی

قرنوں بدلی رسولوں کی ہوتی رہی
چاند بدلی کا نکلا ہمارا نبی

کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے
دینے والا ہے سچا ہمارا نبی

کیا خبر کتنے تارے کھِلے چھپ گئے
پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبی

ملک کونین میں انبیا تاجدار
تاجداروں کا آقا ہمارا نبی

لامکاں تک اجالا ہے جس کا وہ ہے
ہر مکاں کا اُجالا ہمارا نبی

سارے اچھوں میں اچھا سمجھیے جسے
ہے اُس اچھوں سے اچھا ہمارا نبی

انبیا سے کروں عرض کیوں مالکو!
کیا نبی ہے تمہارا ہمارا نبی

جس نے ٹکڑے کیے ہیں قمر کے وہ ہے
نور وحدت کا ٹکڑا ہمارا نبی

سب چمک والے اجلوں میں چمکا کیے
اندھے شیشوں میں چمکا ہمارا نبی

جس نے مردہ دلوں کو دی عمر ابد
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی

غمزدوں کر رضا مژدہ دیجے کہ ہے
بیکسوں کا سَہارا ہمارا نبی

Friday, August 21, 2009

دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی

Dil Main Ho Yaad Teri Goshae Tanhai Ho



نعت خواں: الحاج محمد اویس رضا قادری
کلام: مولانا حسن رضا خاں بریلوی


دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو

آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتے
کب وہ چاہیں گے میری حشر میں رسوائی ہو

اس کی قسمت پہ فدا تخت شہی کی راحت
خاک طیبہ پہ جسے چین کی نیند آئی ہو

بند جب خواب اجل سے ہوں حسن کی آنکھیں
اس کی نظروں میں تیرا جلوہ زیبائی ہو

تیری رحمتوں کا دریا سرِ عام چل

تیری رحمتوں کا دریا سرِ عام چل رہا ہے
مجھے بھیک مل رہی ہے میرا کام چل رہا ہے

میرے دل کی دھڑکنوں میں ہے شریک نام تیرا
اسی نام کی بدولت میرا نام چل رہا ہے

سرِ عرش نام تیرا سرِ حشر بات تیری
کہیں بات چل رہی ہے کہیں نام چل رہا ہے

اسے پوجتی ہے دنیا اسے ڈھونڈتی ہے منزل
رہ عشق مصطفی پہ جو غلام چل رہا ہے

میرے دامن گدائی میں ہے بھیک مصطفیٰ کی
اسی بھیک پر تو قاسم میرا کام چل رہا ہے

تیرے قدموں میں آنا میرا کام

تیرے قدموں میں آنا میرا کام تھا
میری قسمت جگانا تیرا کام ہے
میری آنکھوں کو ہے دید کی آرزو
رخ سے پردہ اٹھانا تیرا کام ہے

تیری چوکھٹ کہاں اور کہاں یہ جبیں
تیرے فیض کرم کی تو حد ہی نہیں
جن کو دنیا میں نہ کوئی اپنا کہے
اُن کو اپنا بنانا تیرا کام ہے

باڑا بجتا ہے سلطان کونین کا
صدقہ مولیٰ علی صدقہ حسنین کا
صدقہ خواجہ پیا غوث ثقلین کا
حاضری ہوگئی یہ بھی انعام ہے

میرے دل میں تیری یاد کا راج ہے
ذہن تیرے تصور کا محتاج ہے
اک نگاہ کرم ہی میری لاج ہے
لاج میری نباہنا تیرا کام ہے

پیش ہر آرزو ہر تمنا کرو
تھام لو جالیاں التجائیں کرو
مانگنے والو دامن کشادہ کرو
کملی والے کا فیض کرم عام ہے

مر کے اپنی ہی اداؤں پہ امر

مر کے اپنی ہی اداؤں پہ امر ہو جاؤں
ان کی دہلیز کے قابل میں اگر ہوجاؤں

ان کی راہوں پہ مجھے اتنا چلانا یارب
کہ سفر کرتے ہوئے گرد سفر ہوجاؤں

زندگی نے تو سمندر میں مجھے پھینک دیا
اپنی مٹھی میں وہ لے لیں تو گوہر ہوجاؤں

میرا محبوب ہے وہ راہبر کون و مکاں
جن کی آہٹ بھی میں سن لوں تو خضر ہوجاؤں

اس قدر عشق نبی ہو کہ بھلادوں خود کو
اس قدر خوف خدا ہو کہ نڈر ہوجاؤں

ضرب دوں خود کو جو ان سے تو لگوں لاتعداد
وہ جو مجھ سے نکل جائے تو صفر ہوجاؤں

جو پہنچتی رہے ان تک جو رہے محو طواف
ایسی آواز بنوں، ایسی نظر ہوجاؤں

آرزو اب تو مظفر جو کوئی ہے تو یہ ہے
جتنا باقی ہوں مدینے میں بسر ہوجاؤں